شام میں ترک فوجی مداخلت کا ہدف رقہ سے داعش کا خاتمہ، ایردوآن
12 فروری 2017استنبول سے اتوار بارہ فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یہ بات آج تین خلیجی عرب ریاستوں بحرین، سعودی عرب اور قطر کے اپنے سرکاری دورے پر روانہ ہونے سے پہلے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
صدر ایردوآن نے کہا کہ ترک فوجی دستوں کی شام میں مسلح کارروائیوں کا ہدف صرف ترک سرحد کے قریب شامی شہر الباب ہی سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جہادیوں کا خاتمہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حتمی ہدف رقہ سمیت شام کے ترکی کے ساتھ تمام سرحدی علاقوں سے داعش کے جنگجوؤں کا خاتمہ ہے۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ الباب کا شہر ترک شامی سرحد سے جنوب کی طرف 30 کلومیٹر یا 20 میل کے فاصلے پر واقع ہے، جس کی طرف انقرہ حکومت کے حمایت یافتہ شامی باغی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ یہ شامی باغی جنوب کی طرف سے اس شہر کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن یہ خطرہ بھی اپنی جگہ ہے کہ ان شامی باغیوں کا شامی حکومتی دستوں کے ساتھ براہ راست تصادم بھی ہو سکتا ہے۔
اس حوالے سے ترک صدر ایردوآن نے صحافیوں کو بتایا، ’’ہمارا حتمی ہدف پانچ ہزار مربع کلومیٹر کے شامی سرحدی علاقے کو صاف کرنا ہے۔‘‘ ساتھ ہی ترک سربراہ مملکت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ ترک فوجی دستوں کا شام میں دیر تک قیام کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور جیسے ہی وہ اپنےعسکری مقاصد میں کامیاب ہوئے، انہیں شام سے واپس بلا لیا جائے گا۔
اس ترک شامی سرحدی علاقے میں انقرہ کے فوجی دستے نہ صرف ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جہادیوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں بلکہ ان کا ایک بڑا نشانہ کردوں کی وائی پی جی (YPG) نامی ملیشیا کے وہ جنگجو بھی ہیں، جنہیں انقرہ حکومت ایک ’جارحیت پسند، ملک دشمن قوت‘ اور ترکی کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے۔
شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ترکی کے حمایت یافتہ شامی باغیوں کو داعش کے خلاف کارروائیوں میں ترک فضائیہ کی بھی بھرپور مدد حاصل ہے اور اتوار بارہ فروری کے روز بھی یہ باغی الباب کے شمال اور جنوب مغرب میں داعش کے جہادیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے۔
آبزرویٹری کے مطابق ترک فورسز، جو حالیہ دنوں کے دوران الباب شہر میں مغرب کی سمت سے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں، اب تک اس شہر کے دس فیصد حصے کو اپنے کنٹرول میں لے چکی ہیں۔
دوسری طرف شامی حکومت کے دستے اور ان کے حامی ملیشیا گروپ بھی جنوب کی طرف سے الباب کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جمعہ دس فروری کے روز تک وہ اس شہر سے صرف ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر رہ گئے تھے۔