شام میں ترک کمانڈوز کا خفیہ ریسکیو آپریشن
22 فروری 2015ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولو کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ رات کیے گئے ترک فوج کے ریسکیو آپریشن میں سلیمان شاہ کے مقبرے کی حفاظت پر معمور فوجیوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلیمان شاہ کی باقیات اس علاقے میں منتقل کر دی گئی ہیں، جو ترک فوج کے زیر کنٹرول ہے۔ سلیمان شاہ ترک سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کے دادا تھے۔
ترک حکام کے مطابق یہ فیصلہ اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے شدت پسند اس علاقے کو اپنے حصار میں لے کر مقبرے کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ ایسا ممکن تھا کہ آئی ایس کے عسکریت پسند آتے ہی ترک فوجیوں کا یرغمال یا پھر ہلاک کر دینے کے ساتھ ساتھ مقبرے کو دھماکا خیز مواد سے اڑا دیتے۔ جس علاقے میں کارروائی کی گئی ہے، وہ ترک سرحد سے اٹھارہ کلو میٹر دور شام میں واقع ہے۔
ترک وزیراعظم نے کہا ہے کہ شامی سرحد میں دراندازی کی اس کارروائی میں ان کی ایک سو فوجی گاڑیاں اور انتالیس ٹینک شامل تھے۔ یاد رہے کہ سلیمان شاہ کا مقبرہ شام کی سرحد کے اندر واقع ہے لیکن ترکی مقبرے کی جگہ کو ایک ڈیل کے تحت اپنی سرزمین سمجھتا ہے۔ یہ مقبرہ سن 1921ء میں فرانس کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کے بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت شام کا علاقہ فرانس کے زیر کنٹرول تھا۔
ترک فوج کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ریسکیو آپریشن میں کسی بھی قسم کی کوئی مسلح جھڑپ نہیں ہوئی تاہم ایک حادثے میں ان کا ایک فوجی ہلاک ہوگیا ہے۔ ترک وزیراعظم کا انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’بدقسمتی سے ایک فوجی کی ہلاکت ہوئی ہے لیکن یہ کسی لڑائی کا نتیجہ نہیں تھی۔ آپریشن کے آغاز میں ایک حادثہ پیش آیا تھا۔‘‘ تاہم یہ تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں کہ یہ حادثہ کیسے پیش آیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ فوجی سلیمان شاہ کی باقیات، جن میں کچھ ہڈیاں بھی شامل ہیں، ترکی واپس لے آئے ہیں۔ نیا مقبرہ جس جگہ بنایا جائے گا،سرحد کے قریب وہ علاقہ ترک آرمی کے زیر کنٹرول ہے۔ وزیراعظم کے مطابق مقبرے کی جگہ کی تبدیلی اور تعمیر بعد میں ہوگی۔
احمد داؤداولو کا مزید کہنا تھا، ’’باقیات کو عارضی طور پر ترکی میں محفوظ کیا جائے گا اور اگر اللہ نے چاہا تو آئندہ چند روز میں ان باقیات کو ایشمے کے علاقے میں بھیج دیا جائے گا۔ نئے مقبرے کے لیے مختص کیا گیا یہ وہ علاقہ ہے، جو ہمارے فوجیوں نے محفوظ کر رکھا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ ہمارا حق ہے۔‘‘
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن ترک کمانڈوز نے تنہا کیا ہے اور انہیں مقامی کرد جنگجوؤں کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ان کا اس آپریشن کی قانونی حیثیت کے بارے میں کہنا تھا، ’’ بین الاقوامی قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے یہ فیصلہ صرف اور صرف انقرہ میں لیا گیا تھا اور اس آپریشن میں کسی بھی پارٹی سے اجازت یا پھر مدد طلب نہیں کی گئی تھی۔‘‘
ترک حکومت متعدد مرتبہ کہہ چکی ہے کہ فرانس کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت وہ مقبرے کے علاقے کو ایک خود مختار ترک علاقہ تصور کرتی ہے اور کسی بھی حملے کے خطرے کے پیش نظر اس کی حفاظت کی جائے گی۔