شام میں ’جہادیوں‘ کی موجودگی خطرناک ہو سکتی ہے، اقوام متحدہ
17 اکتوبر 2012جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے ایک کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ شام میں موجود سینکڑوں غیر ملکی جنگجو وہاں کی تنازعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
شام کے انیس ماہ کے سیاسی بحران کے دوران نسلی بنیادوں پر ہونے والے تشدد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اس کمیشن کے سربراہ Paulo Sergio Pinheiro نے کہا ہے کہ وہاں کے جنگجو جمہوریت یا آزادی کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ ان کا اپنا انقلابی ایجنڈا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شام میں جنگجوؤں اور بالخصوص جہادیوں کی موجودگی ایک خطرے سے کم نہیں ہے۔
دوسری طرف شامی حکومت نے کہا ہے کہ وہ خصوصی مندوب لخضر براہیمی کے منصوبے کے تحت باغیوں کے ساتھ فائر بندی کے معاہدے پر غور وخوص میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن ساتھ ہی ملکی فوج نے باغیوں کے ایک اہم ٹھکانے پر بمباری بھی کی ہے۔
شام کی جلا وطن اپوزیشن نے دمشق حکومت کی طرف سے فائر بندی کی ڈیل میں دلچسپی کی خبر کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ اس معاہدے پر مذاکرات سے قبل صدر بشار الاسد کی حامی فوج کو روزانہ کی بنیادوں پر جاری بمباری کو روکنا ہو گا۔
شامی اپوزیشن کے گروپ سیرئین آبزروریٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے دمشق اور حلب کی اہم ہائی وے پر باغیوں کے قبضے کے بعد سے وہاں کی جانے والی تازہ بمباری ’انتہائی تباہ کن‘ ثابت ہوئی ہے۔ شامی فضائیہ نے معرۃ النعمان کے نزدیک واقع اس شاہراہ پر منگل کی علی الصبح حملہ کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس حملے میں فضائیہ نے کم ازکم انتیس حملے کیے۔ ان حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ اور عرب لیگ کی طرف سے شام کے لیے تعینات کیے گئے خصوصی مندوب لخضر براہیمی نے کہا ہے کہ عید الاضحیٰ کے دوران شام میں مکمل فائر بندی کر د جائے، جس کے لیے انہوں نے ایک منصوبہ تجویز کیا ہے۔ اس کے جواب میں منگل کو شامی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دمشق حکومت چار روزہ فائر بندی کی ڈیل پر عملدرآمد کو ممکن بنانے کے لیے براہیمی سے مذاکرات کی منتظر ہے۔ براہیمی شام میں قیام امن کے لیے علاقائی ممالک کے دوروں پر ہیں۔ اس دوران انہوں نے ایران، عراق، سعودی عرب ، ترکی اور مصر کا دورہ بھی کیا ہے۔
شامی وزارت خارجہ کے ترجمان جہاد مقدسی نے البتہ زور دیا ہے کہ اس عمل میں باغیوں اور ان کے حامیوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مقدسی نے کہا، ’’کسی بھی عمل کے آغاز کے لیے اطراف کی دلچسپی ضروری ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ دمشق حکومت اس حوالے سے دلچسپی رکھتی ہے تاہم دیکھنا ہو گا کہ براہیمی نے علاقائی سطح پر جن اہم ممالک کا دورہ کیا ہے، وہ اس بارے میں کیا مؤقف رکھتے ہیں۔
جہاد مقدسی نے شام کے تنازعہ میں علاقائی طاقتوں کے مبینہ کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا براہیمی مسلح باغیوں پر فائر بندی کے حوالے سے دباؤ ڈال سکیں گے، جن کی وہ مالی اور عسکری مدد کر ر ہے ہیں ۔‘‘
اپوزیشن شامی قومی کونسل نے کہا ہے کہ وہ توقع رکھتی ہے کہ باغی فری سرئین آرمی اپنی کارروائیوں کو روک دے گی تاہم اس کے لیے حکومتی فوج کو پہل کرنا ہو گی۔ شامی قومی کونسل کے رہنما عبدالباسط نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ باغی صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں اور اگر ملکی فوج تشدد کا راستہ ترک کرتی ہے تو وہ خود بخود اپنی کارروائیاں روک دیں گے۔
( ab /ah (Reuters, AFP