شام میں داعش کے خلاف جنگی مشن، جرمنی بھی کود پڑا
1 دسمبر 2015جرمن میڈیا کے مطابق یہ ایک جنگی مشن ہے، جس کی منصوبہ بندی جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ان کے وزراء کر رہے ہیں۔ اس فوجی میں مشن میں ٹورناڈو جاسوس طیارے، فیولنگ طیارے، ایک فَرِيگيٹ اور علاقے میں بارہ سو تک جرمن فوجی تعینات کیے جائیں گے، جو داعش کے خلاف فرانسیسی فوج کو مدد فراہم کریں گے۔
جرمن وزیر دفاع اُرزولا فان ڈئیر لائن کی طرف سے اس منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ اسد حکومت اور اس کے ماتحت فوجیوں کے ساتھ کسی قسم کا بھی کوئی تعاون نہیں کیا جائے گا۔‘‘
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام میں طویل المدتی حل میں ان عناصر کی شمولیت خارج از امکاں قرار نہیں دی جا سکتی، جو فی الحال اسد حکومت کے ساتھ ہیں، ’’ہمیں شامی ریاست کو تباہ ہونے سے بچانا ہوگا۔‘‘ جرمنی کی خاتون وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ اس غلطی کو دوبارہ نہیں دہرایا جانا چاہیے، جو عراق میں کی گئی تھی، ’’ شکست کے بعد صدام حسین کے حمایتیوں کو سیاسی نظام میں شامل نہیں ہونے دیا گیا تھا، اب اس غلطی کو دوبارہ نہیں دہرایا جانا چاہیے۔‘‘
تاہم انہوں نے یہ بات واضح کرتے ہوئے کہا کہ نئی ممکنہ حکومت میں اسد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ جرمنی کی طرف سے شام کی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ پیرس حملوں کے بعد فرانسیسی حکومت کی اپیل پر کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو جرمن حکومت کی طرف سے ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ جرمنی ابھی تک شامی جنگ میں براہ راست شمولیت سے گریز کرتا آیا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ جرمنی کے ایوان زیریں ( بُنڈس ٹاگ) میں اس پر ووٹنگ بدھ کے روز ہو گی۔ برطانیہ بھی شام میں کی جانے والی فضائی کارروائیوں کا حصہ بننا چاہتا ہے اور اس کے پارلیمان میں بھی ووٹنگ رواں ہفتے ہی ہو رہی ہے۔
تاہم جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کا کہنا تھا کہ صرف ٹورناڈو جاسوس طیاروں کے پائلٹ ان علاقوں پر پرواز کریں گے، جو داعش کے زیر کنٹرول ہیں۔