شام میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی، کم از کم بیس افراد ہلاک
14 اگست 2011سیریئن اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ایک بیان میں اتوار کو لاذقیہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تئیس بتائی ہے۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ درجنوں افراد زخمی ہیں، جن میں سے متعدد کی حالت نازک ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب سکیورٹی فورسز دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں ثاقبہ اور حمریہ میں بھی داخل ہوئیں، جہاں انہوں نے متعدد افراد کو گرفتار کیا۔ ان علاقوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کر دیا گیا جبکہ وہاں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
اس گروپ نے قبل ازیں کہا تھا کہ بحری جہاز لاذقیہ پر حملہ کر رہے ہیں اور کئی اضلاع میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ سیریئن اوبزرویٹری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مشرقی شہر کا نواحی علاقہ رمل سکیورٹی فورسز کا خصوصی نشانہ ہے۔
رمل میں ہلاکتوں کی تعداد دس اور زخمیوں کی تعداد پچیس بتائی گئی۔ اس گروپ کے مطابق وہاں ہلاک ہونے والوں میں فلسطینی بھی شامل ہیں، جو رمل میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں آباد ہیں۔
ہفتہ کو بھی سکیورٹی فورسز نے لاذقیہ کے علاقے رمل میں کم از کم دو افراد کو ہلاک کیا جبکہ زخمیوں کی تعداد پندرہ تھی۔
اس گروپ کا مزید کہنا ہے: ’’شہریوں کی بڑی تعداد، بالخصوص خواتین اور بچے رمل چھوڑ گئے ہیں۔‘‘
سیریئن اوبزرویٹری کے مطابق اس علاقے میں ٹیلی فون لائنیں اور انٹرنیٹ کنکشن منقطع کیے جا چکے ہیں۔
اُدھر امریکی صدر باراک اوباما اور سعودی شاہ عبداللہ نے ٹیلی فونک رابطے میں دمشق حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر تشویش ظاہر کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عوام کے خلاف شام کی حکومت کی ظالمانہ مہم کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔
امریکی صدر نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو میں شام کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ لندن میں ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ترجمان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے بالخصوص رمضان کے مہینے میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے اس قدر استعمال پر تشویش ظاہر کی۔
انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق شام میں پانچ ماہ سے جاری حکومت مخالف تحریک کے دوران پرتشدد کارروائیوں میں دو ہزار ایک سو پچاس سے زائد شہری اور چار سو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: افسر اعوان