شام میں کثیر الجماعتی سیاسی نظام کا اعلان
4 اگست 2011خبر رساں ادارے سانا کے مطابق: ’’اسد نے جمعرات کو جماعتوں (سیاسی) کے قانون کے حوالے سے صدارتی فرمان جاری کیا ہے۔‘‘
چوبیس جولائی کو دمشق حکومت نے کثیر الجماعتی سیاسی نظام کے لیے قانون کا مسودہ اختیار کیا تھا، جس سے اقتدار پر بشار الاسد کی بعث پارٹی کی دہائیوں پر محیط اجارہ داری ختم ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کا کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جمعرات کو اپوزیشن کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں جمہوریت نواز مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
سیریئن اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے لندن میں موجود ڈائریکٹر کے مطابق شام کے دارالحکومت دمشق، جنوبی صوبے درعا اور وسطی شہر پالمیرا میں تین ہلاکتیں بدھ کو رات گئے اس وقت ہوئیں، جب مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔
اپوزیشن گروپ لوکل کوآرڈینیشن کمیٹیز کا کہنا ہے کہ وسطی شہر حمص میں جمعرات کو صبح سویرے زور دار فائرنگ کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ اس گروپ کا مزید کہنا ہے کہ شہر میں ٹینکوں کی نقل و حرکت بھی دیکھی گئی ہے۔ اس شہر کا بیرونی دنیا سے رابطہ پہلے ہی منقطع ہے۔
شام میں انسانی حقوق کے ذرائع کے مطابق وہاں مارچ میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہونے سے اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد شہری اور ساڑھے تین سو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم ڈی پی اے کا کہنا ہے کہ ان خبروں کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ شام کے حکام نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے بیشتر نمائندوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں کا ملک میں داخلہ بند کر رکھا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق