شام میں کیمیائی ہتھیار پانچ مقامات پر استعمال ہوئے، اقوام متحدہ
13 دسمبر 2013اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق اس بات کے ’قابل بھروسہ شواہد‘ ملے ہیں کہ کیمیائی ہتھیار ممکنہ طور پر غوطہ، خان اصل، جوبار، سراقب اور الاشرفیہ صنحایا میں استعمال کیے گئے۔
یہ رپورٹ سویڈے اوکے سیلسٹروم کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی ٹیم نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، ’’اقوام متحدہ کا مشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ’سیرین عرب ری پبلک‘ میں فریقین کے درمیان جاری تنازعے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں۔‘‘
تاہم اس رپورٹ میں یہ نہیں واضح کیا گیا ہے کہ یہ ہتھیار کس کی جانب سے استعمال کیے گئے کیونکہ یہ چیز انسپکٹرز کی اس ٹیم کے دائرہ اختیار سے باہر تھی جو انہیں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی طرف سے سونپا گیا تھا۔
شامی حکومت کے خلاف برسر پیکار باغیوں کے علاوہ مغربی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ان ہتھیاروں کے استعمال کی ذمہ داری حکومتی فورسز پر عائد کی جاتی ہے جبکہ شامی حکومت اور اس کے اتحادی روس اور ایران کا مؤقف ہے کہ یہ ہتھیار باغیوں نے استعمال کیے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ممنوعہ کیمیائی ہتھیار بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے اور اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ دارالحکومت دمشق کے مشرقی نواحی ڈسٹرکٹ غوطہ میں 21 اگست کو سارِن گیس استعمال کی گئی۔ انسپکٹرز کی طرف سے 16 ستمبر کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غوطہ میں سارن گیس کے اس حملے کے لیے زمین سے زمین پر فائر کیے جانے والے راکٹ استعمال کیے گئے تھے۔ امریکی حکومت کے مطابق اس حملے میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسی حملے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ان کیمیائی ہتھیاروں کے اس استعمال کی مذمت کی گئی اور امریکا کی طرف سے شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف فوجی آپریشن کی دھمکی دی گئی تھی۔ تاہم روسی کوششوں سے ہونے والے ایک بین الاقوامی معاہدے کے بعد اس امریکی حملے کا خطرہ ٹل گیا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ایک قرار داد کے مطابق شامی حکومت کے پاس موجود تمام تر انتہائی خطرناک کیمیائی ہتھیاروں کو 31 دسمبر تک ملک سے باہر منتقل کر دیا جائے گا جبکہ ان تمام ہتھیاروں اور ان سے متعلق تنصیبات کو 30 جون 2014ء تک تلف کیا جانا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی تیار کردہ یہ رپورٹ سلامتی کونسل کے ارکان اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو پیش کی گئی ہے جبکہ یہ آج جمعہ کے روز جنرل اسمبلی میں بھی پیش کی جائے گی۔