شام پر امریکی پابندیاں 'معاشی دہشتگردی' ہے: ایران
18 جون 2020ایران نے نئی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس "سفاکانہ" اقدام کے نتیجے میں خانہ جنگی سے تباہ حال ملک کی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ جمعرات کو وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی کی طرف سے جاری ہونے ہوالے بیان میں کہا گیا کہ ایران اس قسم کی "یک طرفہ پابندیوں کو شام کے عوام کے خلاف معاشی دہشتگری سمجھتا ہے۔" بیان کے مطابق ایران "ان پابندیوں کو انسانی اقدار اورعالمی قوانین کی خلاف ورزی سمجھتا ہے" اور کورونا وبا کے دوران ایسے اقدامات سے "شام کے لوگوں کی مصیبتوں میں اضافہ ہوگا۔"
ترجمان نے واضح کیا کہ ایران ان پابندیوں کو نظرانداز کرکے شام کے ساتھ اپنا لین دین جاری رکھے گا۔
سن دو ہزار اٹھارہ سے ایران خود بھی امریکی پابندیوں کے نشانے پر رہا ہے، جس کے باعث اس کی تیل کی تجارت اور بینکنگ کا شعبہ متاثر ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے یہ پابندیاں ایران کے ساتھ اوباما دور کے عالمی جوہری معاہدے یک طرفہ طور پر ختم کرنے کے بعد عائد کی گئیں۔
شام میں سن دوہزار گیارہ سے جاری لڑائی میں تین لاکھ اسی ہزار سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ دسیوں لاکھ دربدر ہوگئے ہیں۔ ترکی اور سعودی عرب جیسے ملکوں پر شام کے متحارب مسلح گروہوں کی پشت پناہی کا الزام ہے۔ جبکہ ایران اور روس صدر بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
امریکا نے گزشتہ روز شام پر "سیزر ایکٹ" کے تحت نئی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ابھی پہلی قسط ہے اور آگے مزید تادیبی اقدامات کیے جائیں گے۔ ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو نے بشارالاسد اور ان کی اہلیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ دونوں جنگ کی آڑ میں پیسہ بناتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت اپنے لوگوں پر مظالم کرتی رہے گی، امریکا کا دباؤ بڑھاتا رہے گا۔
امریکی حکام کے مطابق تازہ پابندیوں سے شام میں رہائش کے بعض شاہانہ منصوبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی کانگریس نے شام کی حکومت کے خلاف "سیزر ایکٹ" گزشتہ سال اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اس قانون کو شامی فوج کے ایک سابق فوٹوگرافر کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یہ فوٹوگرافر سن دو ہزار چودہ میں حکومت کے مظالم پر مبنی 55 ہزار تصاویر لے کر شام سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
ش ج، ک م (ایجنسیاں)