شام پر حملے درست ہیں، روس نے مغربی تنقید رد کر دی
1 اکتوبر 2015روسی کی جانب سے گزشتہ روز صدر بشار الاسد کے خلاف برسرِپیکار باغیوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے سینیئر امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ روسی جنگی طیاروں کی کارروائی کسی بڑے تنازعے کا پیشِ خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سن 1979 میں افغانستان میں سابقہ سوویت یونین کی فوج کشی کے بعد روسی جنگی طیارے پہلی مرتبہ کسی فوجی مشن میں شریک ہوئے ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق روسی طیاروں نے اعتدال پسند باغیوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔ دوسری جانب ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ گزشتہ روز کے فضائی حملوں میں انتہا پسند گروپ داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے شام میں اپنے ملک کے جنگی طیاروں کے اہداف کے حوالے سے امریکا کو چیلنج کیا ہے کہ اگر اُس کے پاس ثبوت ہیں کہ روسی جنگی طیاروں نے دہشت گردوں کو نشانہ نہیں بنایا تو سامنے لائے۔ روسی وزیر خارجہ نے شامی اپوزیشن کے اُس الزام کو بھی مسترد کر دیا ہے، جس میں سویلین ہلاکتوں کا کہا گیا تھا۔ اُدھر نیوز ایجنسی روئٹرز نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ بغیر کسی پیشگی وارننگ کے کی گئی اس فضائی کارروائی کے نتیجے میں 33 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب جان کیری سے نیویارک میں آج ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے روسی فضائی کارروائی کے دوران ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ٹھکانوں کے بجائے دوسرے مقامات کو نشانہ بنانے کے الزمات بغیر کسی ثبوت کے ہیں۔ لاوروف کے مطابق امریکا نے روسی فضائی کارروائی کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا تو انہیں کہا گیا کہ وہ ثبوت فراہم کریں کیونکہ روس اپنے جنگی طیاروں کے مشنز کو درست قرار دیتا ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے سویلین ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اِس بارے میں مکمل ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
دریں اثنا کل شام ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹین کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے ماسکو میں پریس کانفرنس میں اپنے حکومتی مؤقف کا اعادہ کیا کہ وہ اسلامک اسٹیٹ اور دوسرے دہشت گرد بشمول انتہا پسندوں کے خلاف شام کی مدد کر رہے ہیں۔ پریس کانفرنس میں پیسکوف نے حیرانی سے کہا کہ آیا فری سیرین آرمی کا کوئی وجود ہے۔ روس کے چھ بمبار طیارے آذربائیجان کا چکر کاٹتے ہوئے شام پہنچے تھے۔ اسی دوران روسیا ٹی وی نے بتایا ہے کہ اسد حکومت کی فوج شمالی حمص میں چھپے ہوئے پانچ ہزار عسکریت پسندوں کے خلاف جنگی آپریشن جلد شروع کرنے والی ہے۔