1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کا بحران: متاثرین پر کیا بیت رہی ہے

Kishwar Mustafa9 اگست 2012

کئی دنوں کی مسافت طے کر کے اور رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک خاندان سرحد پار کر کے لبنان کے پہاڑی علاقے میں داخل ہوا۔ وہاں پہنچنے پر انہیں اندازہ ہوا کہ اُن کے دو بچے غائب ہیں۔

https://p.dw.com/p/15mfF
تصویر: Reuters

شام میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری لڑائی کے نتیجے میں ایک بڑی تعداد میں شہریوں کو نہ صرف گھر بار سے محروم ہونا پڑا ہے بلکہ وہ پناہ کی تلاش میں ہمسایہ ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔ بہت سے خاندانوں کو جہاں سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا ہے وہاں ان کے خاندان کے افراد، بالخصوص بچوں کی سلامتی خطرے میں ہے۔ بہت سے خاندانوں پر گزرنے والی مصیبتوں کے بارے میں سامنے آنے والی کہانیاں دل ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔

کئی دنوں کی مسافت طے کر کے اور رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک خاندان سرحد پار کر کے لبنان کے پہاڑی علاقے میں داخل ہوا۔ وہاں پہنچنے پر انہیں اندازہ ہوا کہ اُن کے دو بچے غائب ہیں۔ وہ دونوں لبنان کے پہاڑی راستوں ہی میں کہیں کھو گئے تھے۔

Syrien / Türkei / Flüchtlinge
ترکی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی حالت بھی ناگفتہ بہتصویر: Reuters

والدین گھنٹوں اپنے بچوں کو ڈھونڈتے رہے اور آخر کار تھک کر انہوں نے پناہ کی تلاش میں آگے چلنا شروع کر دیا۔ مارچ میں بھی اس علاقے میں سخت سردی تھی اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ انہیں ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ چند گھنٹے ہی زندہ رہ پائیں گے۔ شام کی لڑائی نے نہ صرف ان کا متاع حیات چھین لیا بلکہ ان کے خاندان کو تباہ و برباد کردیا۔

ورلڈ وژن ڈوئچ لینڈ کی طرف سے شام کے باشندوں کی امداد کے کاموں کے ایک رابطہ کار مارک آندرے ہینزل مارچ سے لبنان میں قائم شامی پناہ گزینوں کے کیمپ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ وہ متعدد افراد کی دردناک کہانیاں سنتے ہوئے ان کی صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ لڑائی نے سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’’ایسے بچے جو زخمی ہوئے ہیں اور انہیں کوئی طبی امداد نہیں ملی ہے، یا تو وہ مر گئے ہیں یا انہیں زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بہت سے بچے خوفزدہ ہیں اور انہیں بھیانک خواب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بالکل خاموش پتھر بن چکے ہیں۔ صدمے میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

Libanon keine medizinische Hilfe für syrische Flüchtlinge
لبنان میں طبی سہولیات کی شدید قلتتصویر: DW/Tanios

عالمی ادارہ صحت کے ایک ترجمان طارق جاراسیوچ کا کہنا کہ بہت سے صحت کے مراکز اور ہسپتال تباہ ہو گئے ہیں۔ زخمیوں اور مریضوں کے علاج کے لیے ضروری ادویات اور طبی سامان ختم ہو چکا ہے۔ شام میں زیر استعمال دواؤں کا 90 فیصد وہیں تیار کیا جاتا ہے، جس کے خاتمے کے بعد محض ایک صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ وہ دوسرے ملکوں سے دوائیں خریدے۔ تاہم یہ موجودہ صورتحال میں ناممکن ہے۔ متاثرین کے علاوہ سنگین بیماریوں کے شکار دل کے مریضوں سمیت ذیابیطس اور سرطان جیسے مہلک عارضوں میں مبتلا مریضوں کو بھی دوائیں دستیاب نہیں۔

K.kersten/km/ng

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں