شام کی صورتحال سے نا امید نہیں ہونا چاہیے: کوفی عنان
12 مارچ 2012گزشتہ ویک اینڈ پر اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان نے شام کے دارالحکومت دمشق میں دو بار شامی صدر بشارالاسد سے ملاقات کی۔ اقوام متحدہ اور عرب لیگ کی طرف سے انہیں خصوصی مندوب کے طور پر شام بھیجا گیا تھا تاکہ وہ شام کے صدر کے ساتھ ملک میں تشدد کے خاتمے کے سلسلے میں مذاکرات کریں۔ تاہم ان کی کوشش اب تک ثمر بار ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ اس کے باوجود کوفی عنان خوش امیدی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ مشن ناکام نہیں ہونا چاہیے۔ اُدھر شامی فوج شمال مغربی علاقے ادلیب میں حکومت مخالفین کے مظاہروں کو کچلنے کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
دو روز کے اندر اندر بشارالاسد اور کوفی عنان کی دو ملاقاتوں کے بارے میں کہنے کو تو بہت کچھ ہے تاہم اپنے امن مشن کی کامیابی کے بارے میں کوفی عنان لب بستہ نظر آ رہے ہیں۔ کوفی عنان کا کہنا ہے،’ہاں یہ یقیناﹰ مشکل ہوگا، نہایت سنگین عمل ہے، تاہم ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ میں بہت سی وجوہات کے سبب پُر اُمید ہوں۔ میں یہاں بہت قلیل مدت کے لیے تھا۔ ہر شامی باشندہ، جس سے میں ملا، اپنے ملک میں امن کا خواہش مند ہے۔ یہ لوگ تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ اپنی زندگی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں‘۔
بشار الاسد اور کوفی عنان کے مابین ہونے والی بات چیت کا محور وہ عمل تھا، جس کے تحت تشدد اور قتل کا فوری طور پر خاتمہ ہونا چاہیے، شورش زدہ علاقوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں کو پہنچنے کی اجازت دی جائے اور ایک سیاسی مکالمت شروع کی جائے۔ تاہم ان سب کے لیے شام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، جو اس ملک میں ٹھوس بنیادوں پر ایک جمہوری ڈھانچے کی تشکیل کو ممکن بنا سکے۔ ایک پُر امن، مستحکم کامیاب معاشرہ، جہاں قانون کی بالادستی ہو اور انسانی حقوق کا احترام۔ کوفی عنان کے بقول،’ میں نے صدر اسد کو چند ٹھوس تجاویز پیش کی ہیں، اگر انہیں قبول کر لیا جائے تو یہ فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ ان سے امن کے قیام کے عمل اور بحران کے خاتمے میں مدد ملے گی‘۔
کوفی عنان اور انہیں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے شام بھیجنے والا عالمی ادارہ اقوام متحدہ اور عرب لیگ سمیت شامی عوام اس شورش زدہ ملک میں امن سے متعلق کسی معاہدے پر اتفاق اور تشدد کے خاتمے سے بہت دور ہیں۔ تاہم صدر اسد اور کوفی عنان کی دوسری ملاقات پہلی ملاقات کے مقابلے میں بری نہیں رہی۔ اُدھر شامی خبر رساں ادارے SANA کے مطابق صدر اسد نے کہا ہے کہ جب تک ان کے ملک میں مسلح دہشت گرد گروپ موجود ہیں کسی قسم کی مکالمت کامیاب نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ گروپ شام میں سیاسی افراتفری اور بد نظمی پھیلانے اور ملک کو غیر مستحکم بنانے کا باعث بنے ہیں۔
رپورٹ: بلشکے بیژورن/ کشور مصطًفیٰ
ادارت: امتیاز احمد