1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے تنازعے میں فرانس کی دلچسپی کے محرکات

ندیم گِل17 ستمبر 2013

شام کے خلاف عسکری کارروائی کے لیے امریکا کے بعد سب سے زیادہ زور دار آواز فرانس نے اٹھائی۔ شام فرانس کی سابق نو آبادی ہے تاہم شام کا تنازعہ حل کرنے کے معاملے میں پیرس حکومت کی دلچسپی کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/19ipM
تصویر: Reuters

فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ کی جانب سے شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف عسکری کارروائی کے لیے دباؤ برقرار رکھنے کو بعض تجزیہ کار امریکی صدر باراک اوباما کی پیروی قرار دے رہے ہیں۔ تاہم خبر رساں ادارے اے پی نے ایک تبصرے میں لکھا ہے کہ محض ایسا نہیں ہے۔

اس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں تاریخی پہلو اور اپنی انفرادی اہمیت ثابت کرنا بھی شامل ہے۔

شام اور لبنان فرانس کی سابق نوآبادیاں ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں متعدد افراد فرانسیسی زبان بولتے ہیں۔ فرانس کے لبنان کے ساتھ بالخصوص قریبی تعلقات ہیں اور پیرس حکام نہیں چاہتے ہیں کہ لبنان شام کے تنازعے میں مزید پھنسے۔

شام میں میں حکومت کے خلاف لڑائی میں حصے لینے والے دو سو سے زائد یورپی شہریوں میں سے تقریباﹰ نصف کا تعلق فرانس سے ہے۔ پیرس حکومت کو خدشہ ہے کہ یہ لوگ واپسی پر ملک کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔

سرد جنگ کے زمانے میں صدر جنرل شارل دیغول کے دَور سے ہی فرانس یہ بات ثابت کے لیے کوشاں رہا ہے کہ وہ عسکری فیصلے خود کرتا ہے۔ یہ ایک جوہری طاقت ہے۔ اس نے ایک بہترین انٹیلیجنس سسٹم تشکیل دے رکھا ہے جس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ معلومات کے حصول کے لیے اس کا انحصار امریکا پر نہیں ہے۔

Syrien Francois Hollande Pressekonferenz
فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈتصویر: REUTERS

دارالحکومت پیرس کے شمال میں کرئیے کے علاقے میں فرانس کی ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی ڈی آر ایم کے صدر دفاتر قائم ہیں، جہاں سے سیٹیلائٹ کے ذریعے شام کی نگرانی بھی کی جاتی ہے۔

اے پی کے مطابق اس ایجنسی میں تعینات فوجی اہلکار خاموشی سے یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ سیٹیلائٹ کے ذریعے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی نقل و حرکت کی نگرانی کافی مشکل ہے۔

مالی میں عسکری مداخلت نے بھی بیرونی کارروائیوں کے لیے فرانس کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ فرانسیسی فوج نے دہشت گرد گروہ القاعدہ کی افریقی شاخ کو مالی کے شمالی علاقوں سے بڑی حد تک نکال باہر کیا تھا۔ شام کے لیے فرانس کے سابق سفیر مارک پیئرنی کا کہنا ہے کہ مالی میں مداخلت کے ذریعے فرانس کو اپنی عسکری استعداد ثابت کرنے کا موقع ملا ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ نے شام کے خلاف ممکنہ عسکری کارروائی کی منظوری نہیں دی تھی۔ یوں فرانس بشار الاسد کے خلاف کارروائی کے لیے واحد یورپی ملک کے طور پر کھڑا رہا۔ پیئرنی کہتے ہیں کہ عسکری لحاظ سے کسی دوسرے یورپی ملک کی ضرورت نہیں ہے۔

سابق فرانسیسی وزیر خارجہ ہوبیر ویدرین کا کہنا ہے کہ فرانس یورپی یونین کو مزید طاقتور بھی بنانا چاہتا ہے۔

فرانس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک ہے۔ اے پی کے مطابق اکثر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ فرانس کا اثر و رسوخ ماند پڑ رہا ہے۔ فرانسوا اولانڈ اس تاثر کو زائل کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے فرانس کا وسیع تر سفارتی نیٹ ورک استعمال کر رہے ہیں۔