شام کے خلاف قرارداد کے مسودے پر اختلافات برقرار
12 ستمبر 2013اقوام متحدہ کے ايک سفارت کار کے بقول اس ملاقات ميں مندوبين نےشام کے کيميائی ہتھياروں کو ختم کرنے سے متعلق زير غور قرارداد کے مسودے پر تبادلہ خيال کيا۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ پينتاليس منٹ طويل يہ ملاقات نيو يارک ميں قائم اقوام متحدہ کے ہيڈ کوارٹر ميں روسی مشن کے دفتر ميں ہوئی۔ سفارت کار نے مزيد بتايا، ’’شرکاء نے اپنی اپنی پوزيشن واضح تو کیں تاہم ٹھوس مذاکرات نہيں ہوئے۔‘‘
اقوام متحدہ کے اس سفارت کار کا کہنا تھا کہ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر کوئی امريکی وزير خارجہ جان کيری اور ان کے روسی ہم منصب سيرگئی لاوروف کے درميان آج ہونے والی ملاقات پر تکيہ کيے بيٹھا ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ شام کے کيميائی ہتھياروں کو بين الاقوامی نگرانی ميں ختم کيے جانے اور دمشق انتظاميہ کے خلاف ممکنہ عسکری کارروائی کے خطرات کو ٹالنے سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خيال کريں گے۔
امريکا، برطانيہ اور فرانس ايک ايسی قرارداد پر زور دے رہے ہيں، جس ميں يہ شرط موجود ہو کہ اگر دمشق کی جانب سے کيميائی ہتھياروں کا کنٹرول بين الاقوامی ہاتھوں ميں نہيں ديا گيا، تو اس کے ’انتہائی شديد‘ نتائج برآمد ہوں گے۔ فرانس کی طرف سے تيار کردہ قرارداد، جو نيوز ايجنسی اے ايف پی نے حاصل کی، کے تحت اقوام متحدہ شام کو اپنے ہاں موجود تمام کيميائی ہتھياروں کی نشاندہی کرنے کے ليے پندرہ ايام کا وقت دے گا۔ ايسی کسی ممکنہ صورت ميں کہ جب شام قرارداد پر عمل در آمد نہ کر پائے، يہ قرارداد اقوام متحدہ کے چارٹر کے ’چيپٹر سات‘ کے تحت دمشق کے خلاف ممکنہ عسکری کا دروازہ کھول دے گی۔
دوسری جانب سيرگئی لاوروف کا کہنا ہے کہ ايسی کسی قرارداد کا مسودہ جو مبينہ کيميائی حملے کا قصور وار شامی صدر اسد کو ٹھہرائے ’ناقابل قبول‘ ہوگا۔ سفارت کاروں کے بقول روس اس قرارداد ميں ’چيپٹر سات‘ کے تحت طاقت کے استعمال کے بھی خلاف ہے۔ نيوز ايجسی اے ايف پی کے مطابق فرانس اس جانب اشارہ کر چکا ہے کہ وہ اپنی تيار کردہ اس قرارداد کے مسودے ميں رد و بدل کے ليے راضی ہے ليکن اسد پر دباؤ برقرار رہنا چاہيے۔
دريں اثناء تيس ماہ سے زائد عرصے سے جاری شامی تنازعے،جس ميں ايک لاکھ سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں، کے تاحال حل نہ ہونے کے سبب سلامتی کونسل کو سخت تنقيد کا سامنا ہے۔ عالمی تنظيم کے سيکرٹری جنرل بان کی مون نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں اس صورتحال کے ليے ’شرمناک تعطل‘ کے الفاظ استعمال کيے ہيں۔ يورپی يونين کی خارجہ امور کی سربراہ کيتھرين ايشٹن نے بھی اسی حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر تنقيد کی ہے۔