شامی صدر بشار الاسد کی ایرانی رہنماؤں سے ملاقاتیں
9 مئی 2022ایران اور شام کی میڈیا کے مطابق شام کے صدر بشار الاسد نے آٹھ مئی اتوار کے روز تہران کا دورہ کیا اور وہاں اپنے مختصر قیام کے دوران ایران کے سربراہ اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقاتیں کیں۔
سن 2011 میں شام کی خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے صدر اسد کا ایران کا یہ دوسرا دورہ تھا، حالانکہ تہران دمشق حکومت کا مستقل حامی رہا ہے اور اس نے 11 سالہ تنازعے کے دوران اسے مالی اور عسکری دونوں طرح کی مدد بھی فراہم کی ہے۔ اسد نے ایران کا آخری دورہ فروری 2019 میں کیا تھا۔
دورے کے دوران کیا باتیں ہوئیں؟
ایران کے سرکاری ٹیلیویژن کے مطابق روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسد سے ملاقات کے دوران کہا کہ ''آج کا شام وہ نہیں ہے جو جنگ سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ بلکہ اب شام کی عزت اور اس کا وقار پہلے سے کہیں زیادہ ہے اور ہر کوئی اس ملک کو ایک طاقت کے طور پر دیکھتا ہے۔''
میڈیا کے حوالے سے بتایا گیا کہ صدر اسد نے اس موقع پر کہا کہ ''ایران اور شام کے درمیان کے اسٹریٹیجک تعلقات نے خطے میں صیہونی حکومت (اسرائیل) کے تسلط کو روکنے کا کام کیا ہے۔''
اسد نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا کہ ایران اور شام کے درمیان مضبوط تعلقات نے مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے اور اسے روکنے میں بھی مدد کی ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی صنعا نے اسد کے حوالے سے کہا، ''امریکہ آج پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ ہمیں اس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہیے۔'' انہوں نے شام میں، ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' میں ایرانی مدد کی بھی تعریف کی۔
ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم کی اطلاعات کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اسد کے ساتھ اپنی ملاقات میں کہا کہ ان کی حکومت کی ترجیح یہ ہے کہ شام کے ساتھ دفاعی اور اسٹریٹیجک تعلقات کو مضبوط تر کیا جائے۔
ایران اور شام کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
ایرانی قیادت شام کو اپنے علاقائی دشمن اسرائیل کی مخالفت میں اپنے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتی ہے۔ حالیہ برسوں میں شام میں ایران کے اقتصادی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوا ہے اور تہران نے دمشق حکومت اور ایرانی کمپنیوں کو منافع بخش کاروباری معاہدے کے لیے بھاری قرضوں کی بھی پیشکش کی ہے۔
تہران شام کی خانہ جنگی میں اسد حکومت کو اہم عسکری اور مالی مدد بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ اس نے دمشق کی دعوت پر شام میں اپنی فوجیں تعینات کی ہیں، تاہم وہ صرف صلاح و مشورے کے لیے ہیں۔
لیکن اس تنازعے میں لبنان کی حزب اللہ سمیت ایران کی دیگر پراکسی ملیشیا شامی حکومت کی افواج کو فعال مدد فراہم کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ ایران اور روس کی مدد سے بشار الاسد اس تنازعہ کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو ئے، اور اب اسد کے مخالفین کے محض چند گڑھ ہی باقی بچے ہیں۔
ابتدا میں اسد حکومت کی مخالفت جمہوریت کے حامی پرامن مظاہروں سے ہوئی تھی، تاہم بعد میں نام نہاد عرب بہار کی تحریک سے متاثر ہو کر یہ تنازعہ خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا اور آہستہ آہستہ یہ ایک طویل خونی جنگ بن گئی۔
اس تنازعے میں بیشتر ممالک نے مخالفین کا ساتھ دیا تاہم روس اور ایران سمیت کئی دیگر ممالک اسد حکومت کے ساتھ رہے اور اپنا فعال کردار ادا کیا۔ اب تک اس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تخمینہ چار لاکھ کے قریب بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں افراد اندرونی اور بیرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)