شامی امن عمل کے لیے میونخ میں ملاقات مگر کامیابی کی امید کم
10 فروری 2016گزشتہ قریب پانچ برسوں سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک جبکہ کئی ملین افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے شام کے لیے خصوصی نمائندے اسٹیفان ڈے مِستورا کی کوششوں سے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کا عمل گزشتہ ہفتے منقطع ہو گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ روس کی طرف سے شامی صدر بشار الاسد کی مدد کے لیے ان گروپوں کے خلاف فضائی حملے ہیں، جنہیں مغرب کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان مذاکرات کی بحالی کے لیے اب 25 فروری کی تاریخ دی گئی ہے۔
سفارتی کوششوں کو ناکامی سے بچانے کے لیے امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری اس کوشش میں ہیں کہ میونخ میں انٹرنیشنل سیریا سپورٹ گروپ (ISSG) کی میٹنگ سے قبل ہی شام میں ایک تو جنگ بندی کرائی جائے اور دوسرا جنگ زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں تک انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانے کا دائرہ بڑھایا جائے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک سفارتی ذریعے کا کہنا ہے کہ روس تاہم کیری کے ساتھ اس بات پر الجھ رہا ہے کہ ماسکو کے اصل مقصد کو محفوظ بنایا جائے جو دراصل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملہ طے کرنے کی بجائے اپنے حامی بشار الاسد کی فتح کا خواہشمند ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس ذریعے نے روئٹرز کو بتایا، ’’یہ بات اب ہر ایک پر واضح ہے کہ روس دراصل کوئی متفقہ حل نہیں بلکہ اسد کی فتح چاہتا ہے۔‘‘
شامی صدر بشارالاسد کے ایک سینیئر ایڈوائزر بثينہ شعبان کا منگل کے روز کہنا تھا کہ اس فوجی یلغار میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی جس کا مقصد حلب کو باغیوں سے واپس حاصل کرنا اور ترکی کے ساتھ اپنی سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔
حلب کا محاصرہ
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران شامی فورسز، حزب اللہ اور دیگر شیعہ ملیشیاؤں نے روسی فضائی حملوں کی مدد سے مختلف علاقوں پر اب تک کامیابی سے قابض چلے آ رہے شامی باغیوں کو پسپا کرنا شروع کر دیا ہے اور ان باغیوں کو حلب شہر میں محصور کر دیا ہے۔ حلب پہلے بھی باغیوں اور شامی فورسز کے درمیان تقیسم تھا۔ واضح رہے کہ ان باغیوں کا دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ وہ باغی ہیں، جنہیں مغربی دنیا مدد فراہم کر رہی ہے۔
یہ پیشرفت اقوام متحدہ اور مغربی حکام کے لیے تشویشناک ہے، جن کا یہ ماننا ہے کہ روس، شام اور ایران کی اس مہم کا مقصد جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کی میز پر شامی اپوزیشن کی پوزیشن کو کمزور کرنا، گراؤنڈ پر انہیں قتل کرنا اور ماسکو کی طرف سے ستمبر میں فضائی حملوں کے آغاز کے بعد سے پہلی بڑی فتح حاصل کرنا ہے۔ ایک مغربی سفارت کار کے مطابق، ’’جنگ بندی کا حصول جلد ممکن ہو جائے گا کیونکہ تمام تر اپوزیشن مر چکی ہو گی۔‘‘
مانیٹرنگ گروپ کے مطابق حلب کے گرد ونواح میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں تمام اطراف کے قریب 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ باغی گروپوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو واشنگٹن ان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں شریک ہوں جبکہ دوسری طرف میدان جنگ میں ان کی مدد پر کوئی خاص توجہ نہیں ہے۔ ان کی طرف سے تازہ حملوں سے نمٹنے کے لیے اینٹی ایئرکرافٹ میزائلوں کی اپیل کوئی نہیں سن رہا۔