شامی امن مذاکرات: نیا آغاز غیر معینہ مدت تک مؤخر رہے گا، روس
1 نومبر 2016روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگُو کے اس تازہ بیان سے یہ امیدیں دوبارہ دم توڑ گئی ہیں کہ شام میں قیام امن کے لیے مذاکرات کا دوبارہ آغاز جلد ممکن ہو سکے گا۔ روسی وزیر دفاع کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حلب میں مغربی ممالک کے حمایت یافتہ باغی فائر بندی معاہدے کے باوجود عام شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’نتیجے کے طور پر امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز اور شام میں پرامن زندگی کی واپسی کی امید میں غیر معینہ مدت تک کے لیے تاخیر ہو جائے گی۔‘‘
روسی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے ایک دوسرے بیان میں کہا گیا ہے کہ ابھی تک اسد حکومت اور روس حلب میں فضائی بمباری کے حوالے سے فائر بندی معاہدے پر کاربند ہیں لیکن باغیوں نے اپنے حملے بند نہ کیے تو ایسے کسی معاہدے میں توسیع ممکن نہیں رہے گی۔
حلب میں شامی باغیوں نے گزشتہ ہفتے حکومتی فورسز کے زیر کنٹرول مغربی حلب میں لڑائی کا آغاز کر دیا تھا۔ گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے حکومتی فورسز روس کی مدد سے حلب شہر کے مشرقی حصے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حکومتی فورسز نے اس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
آج منگل یکم نومبر کے روز اقوام متحدہ نے کہا کہ حلب میں لڑائی کرنے والے تمام فریق ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں کیوں کہ وہ عام شہریوں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شامی حکومت اور اس کے اتحادی روس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اٹھارہ اکتوبر سے حلب پر فضائی حملوں کا سلسلہ بند کر رکھا ہے۔ مغربی ملکوں کی حکومتیں صدر اسد اور روس پر الزام عائد کرتی ہیں کہ ان کی طرف سے بمباری میں عام شہریوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی ہے جبکہ روس اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حلب میں جنگ بندی کا معاہدہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے کیوں کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کہہ چکے ہیں کہ اس معاہدے کا انحصار ان اعتدال پسند باغی گروپوں کے رویے پر ہے، جن کو مغرب کی حمایت حاصل ہے۔
روسی وزیر دفاع کا آج کہنا تھا کہ اب مغربی ملکوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ دہشت گردوں کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں یا پھر روس کے خلاف۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں امن مذاکرات کا آخری موقع قریب آ چکا ہے اور اگر اسے ضائع کر دیا گیا تو جنگ کا سلسلہ مزید طویل ہو سکتا ہے۔