’شامی باغیوں کے انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا پہلا ثبوت
11 اکتوبر 2013ہیومن رائٹس واچ نے آج جمعے کے روز بتایا کہ اس سال اگست میں شامی باغیوں نے لاذقیہ نامی صوبے میں بڑی کارروائی کرتے ہوئے کم از کم 190 عام شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا اور 200 سے زائد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ بیروت سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق ہیومن رائٹس واچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعے کے بارے میں ایسے اولین ثبوت بھی موجود ہیں کہ خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں اپوزیشن فورسز انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہوئیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شامی اپوزیشن کے ہاتھوں قتل ہونے والے ان عام شہریوں میں سے بہت سے افراد مختلف عسکریت پسند گروپوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ان عسکریت پسند گروپوں میں چند ایسے بھی تھے جن کا تعلق دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے ہے۔
روئٹرز نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ لاذقیہ پر چار اگست کو یہ حملہ جن اپوزیشن گروپوں نے کیا تھا، ان کا ہدف اس شامی صوبے میں ملکی فوج کی بہت سی پوزیشنیں تھیں۔ شامی فوج کی ان پوزیشنوں پر قبضے کے بعد اپوزیشن حملہ آوروں نے دس ایسے قریبی دیہات پر بھی دھاوا بول دیا تھا جہاں علوی فرقے کے لوگ رہتے تھے۔ شامی صدر بشار الاسد کا تعلق بھی علوی فرقے سے ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے یہ دعویٰ شام کے ڈھائی سالہ خونریز تنازعے کے دوران اس تنظیم کے ماہرین کے اُس پہلے دورہء شام کے بعد کیا گیا ہے، جس کی دمشق حکومت نے باقاعدہ منظوری دی تھی۔ اس دورے کے دوران نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے وفد نے شام میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر وسیع تر قتل عام کے کئی واقعات سے متعلق حقائق جمع کیے۔ ان واقعات میں صدر اسد کے مخالفین نے ایک بڑی مہم کے دوران مغربی ملکوں کے حمایت یافتہ باغیوں کے ساتھ مل کر کارروائیاں کی تھیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ کو عنوان دیا گیا ہے، ’’آپ اُن کا خون اب بھی دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ اس رپورٹ کے مطابق ایسے چند واقعات میں تو شامی باغیوں نے پورے کے پورے خاندانوں کو اپنے سامنے کھڑا کر کے گولیاں مار دیں یا ایسے خاندان اس وقت ہلاک کر دیے گئے جب ان کے ارکان اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو رہے تھے۔
رپورٹ میں مختلف شامی باغی گروپوں کو عام شہریوں کے قتل عام کے ان واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان میں سے پانچ گروپوں کی باقاعدہ نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ لاذقیہ میں ایسی کارروائیوں کے لیے مالی وسائل کی فراہمی، ان کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے ذمہ دار گروپوں میں النصرہ اور اسلامک اسٹیٹ آف عراق نامی گروپ بھی شامل ہیں۔ ان دونوں عسکریت پسند گروپوں کے القاعدہ کے ساتھ رابطے ہیں۔ باقی تین عسکریت پسند باغی گروپوں میں سے ایک غیر ملکی جہادیوں کا ایک یونٹ ہے اور ایک احرار الشام نامی مقامی اسلام پسندوں کا ایک مسلح گروپ۔
ہیومن رائٹس واچ کے بقول یہ بات زیادہ واضح نہیں کہ قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ان واقعات میں فری سیریئن آرمی کا کردار کیا تھا۔ اس اپوزیشن اتحاد کو امریکا، برطانیہ، فرانس اور خلیج کی کئی سنی عرب ریاستوں کی حمایت حاصل ہے۔