شامی بحران کے سفارتی حل کی تلاش میں کیری ویانا میں
23 اکتوبر 2015آسٹریا کے درالحکومت ویانا میں کیری نے آج جمعہ 23 اکتوبر کو دن بھر جاری رہنے والی مصروفیات کا آغاز سعودی اور ترک وزرائے خارجہ سے ملاقاتوں سے کیا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور ترک وزیر خارجہ فریدون سِنری اولو نے اس امریکی نطقہ نظر کی حمایت کی کہ شامی مسئلے کے حل کے لیے بشارالاسد کو جانا ہو گا۔ جان کیری نے بعد ازاں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف سے الگ سے ملاقات کی۔ روس بشارالاسد کا سب سے بڑا حامی ہے۔
اے پی کے مطابق ان ابتدائی ملاقاتوں کے بعد کسی بھی رہنما نے میڈیا سے گفتگو نہیں کی۔ تاہم چاروں وزرائے خارجہ کی مشترکہ ملاقات آج دن کے دوسرے حصے میں شیڈول ہے۔
جمعرات 22 اکتوبر کو جرمن دارالحکومت برلن میں جان کیری نے کہا تھا کہ ویانا میں ہونے والی بات چیت کا مرکزی نقطہ ’’بڑے پیمانے پر ان بہت ضروری ممالک کی شمولیت ہے جن کا مذاکرات کی میز پر موجود ہونا ضروری ہے‘‘ تاکہ شامی بحران کے حل کا راستہ تلاش کیا جا سکے۔ روس کی خواہش ہے کہ بشارالاسد کے دوسرے بڑے حامی ملک ایران کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جبکہ سعودی عرب کی طرف سے خاص طور پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔
کیری کے مطابق ایران اور روس سمیت وہ تمام ممالک جن کی شام میں دلچسپی ہے، اس بات پر متفق ہیں کہ شام کو ایک متحد، سیکولر اور تمام لوگوں کے لیے ایک ملک ہونا چاہیے جس کی حکومت لوگوں کی متفقہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اسد کی موجودگی وہ واحد مسئلہ ہے جو اس ہدف کے اصول میں رکاوٹ ہے۔ کیری نے امید ظاہر کی کہ یہ مذاکرات ایک پراسیس شروع کرنے میں معاون ہوں گے جس پر وسیع پیمانے پر بات چیت ہو سکے گی۔
شام میں 2011ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی اب پانچویں برس میں داخل ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں بلکہ گھر بار سے محروم ہونے والے شامی شہریوں نے یورپ کے لیے مہاجرین کا ایک بحران کھڑا کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس بحران میں دہشت گرد گروپ داعش کو بھی پنپنے کا موقع مِلا۔ داعش کے خلاف کارروائی کے نام پر ہی روس نے شام میں فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
ادھر کریملن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بذریعہ فون ترکی، سعودی عرب، مصر، اردن اور شامی رہنماؤں سے بات کی ہے۔ جان کیری بھی آج جمعہ ہی روز اردن اور بعد میں سعودی عرب جائیں گے۔