شامی بحران، ہجرت کرنے والے بچوں کی تعداد دس لاکھ ہو گئی
23 اگست 2013اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسف کے انتھونی لیَک کا کہنا ہے، ’’ یہ دس لاکھ پناہ گزین بچے وہ ہیں، جو جنگ سے خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں سے اور اپنے خاندانوں سے علیٰحدہ ہوئے ہیں اور ہمیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق شام میں دو سال سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے رجسٹرڈ افراد میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔ زیادہ تر شامی مہاجرین نے لبنان، اردن، ترکی، عراق اور مصر کا رخ کیا ہے اور ان میں سے بیشتر اب شمالی افریقہ اور یورپ منتقل ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق کل شامی مہاجر بچوں میں سے سات لاکھ چالیس ہزار کی عمریں 11 سال سے کم ہیں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے ہائی کمشنر اینٹونیو گیٹریز کا کہنا ہے، ’’ اس وقت ایک پوری نسل کی بقاء داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ شامی نوجوان اپنے گھر، اپنے خاندان اور اپنا مستقبل کھو رہے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے جنگ سے بچنے کے لیے سرحد تو پار کر لی ہے لیکن وہ ایک صدمے اور دکھ کی کیفیت میں ہیں۔ ایسے افراد ایک نئی امید کی تلاش میں ہیں۔‘‘
شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں ملک کے اندر بھی قریب بیس لاکھ بچے بے گھر ہو چکے ہیں جب کہ دو سال سے جاری اس بحران کے نتیجے میں ایک لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں، جن میں سات ہزار نوجوان اور بچے بھی شامل تھے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ کم عمر بچوں کو چائلڈ لیبر، جنسی استحصال اور اسمگلنگ کے لیے استمعال کیے جانے کا خطرہ ہے کیونکہ اردن، لبنان اور عراق میں موجود 3500 بچے ایسے ہیں، جنہوں نے اپنے گھر والوں کے بغیر اکیلے شام کی سرحد عبور کی ہے۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی نے متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں، جن کے تحت شام سے ہجرت کرنے والے ان دس لاکھ بچوں کے ناموں کا اندراج کیا جا سکے۔ انہی اقدامات کے تحت جلا وطنی کے دوران پیدا ہونے والے بچوں کو پیدائشی سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے گا تاکہ وہ بے وطن ہونے سے بچ سکیں۔