شامی حکومت نے دو سو ساٹھ قیدیوں کو رہا کردیا
26 مارچ 2011انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ایک شامی وکیل کے مطابق رہا کیے جانے والے یہ قیدی وہ ہیں جنہوں نے اپنی سزا کا کم از کم تین چوتھائی حصّہ پورا کر لیا تھا۔
دوسری جانب شامی صدر بشار الاسد کو اپنے گیارہ سالہ اقتدار کے دوران سب سے سنگین سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ ان کے خلاف مظاہرے نہ صرف یہ کہ جاری ہیں بلکہ وہ ملک کے دیگر حصّوں میں بھی پھیل رہے ہیں۔
جمعے کے روز جنوبی شام میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں درجنوں مظاہرین کی ہلاکت کے بعد شام میں حکومت مخالف مظاہرے پھیل گئے ہیں۔ جمعے کی نماز کے بعد ہزاروں افراد نے ملک کے مختلف علاقوں میں مظاہرے کیے۔
مختلف اطلاعات کے مطابق صرف جنوبی شہر درعا میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے باعث 23 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، تاہم آزاد ذرائع سے ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہو پا رہی ہے۔ حکام کی جانب سے صحافیوں کی نقل وحرکت پر پابندیوں کے بعد شام سے معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
شام کے علاقے درعا میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر مارچ کیا اور حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ یہ مظاہرین ’’آزادی‘‘ کے حق میں نعرے بلند کر رہے تھے۔
طلاعات کے مطابق شام کے ایک اور جنوبی شہر الصنمین میں بھی مظاہروں میں شدت دیکھی گئی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق الصنمین میں بھی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کیا، جس کے نتیجے میں غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق جمعے کے روز وہاں 20 افراد ہلاک ہوئے۔
بین الاقوامی برادری کی جانب سے شامی حکومت کے پرتشدّد طرزِ عمل کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عصمت جبیں