شامی خانہ جنگی، پانچ برسوں میں کیا کیا ہوا؟
12 مارچ 2016شامی بحران کے حل کی تازہ ترین کوششوں کے نتیجے میں ستائیس فروری کو جنگ بندی کا ایک معاہدہ نافذالعمل ہو گیا تھا لیکن شامی فورسز پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اس جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف عالمی طاقتیں شام کے لیے امن مذاکرات کے تحت اس تنازعے کے فریقین کے ساتھ کسی پرامن حل تک پہنچنے کی کوششوں میں ہیں۔
آئندہ ہفتے شام کا بحران چھٹے برس میں داخل ہو جائے گا۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران شام کے بحران نے کیا اثرات مرتب کیے:
ہلاکتیں اور زخمی افراد
شام میں بین الاقوامی مبصرین کی عدم موجودگی کی وجہ سے درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ شامی بحران کتنے انسانوں کو نگل چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے محتاط اندازوں کے مطابق کم ازکم ڈھائی لاکھ شامی اس خانہ جنگی کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ ایک ملین سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران شام میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو لاکھ ستّر ہزار سے زائد ہے۔ دوسری طرف سیریئن سینٹر فار پالیسی ریسرچ نامی ایک تھنک ٹینک کے مطابق شامی بحران کی وجہ سے بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار لاکھ ستّر ہزار کے قریب بنتی ہے۔
مہاجرت اور بے وطنی
شامی بحران سے قبل وہاں مجموعی طور پر تئیس ملین نفوس آباد تھے۔ ایک اندازے کے مطابق شامی تنازعے کے باعث نصف آبادی متاثر ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق شام میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 6.5 ملین بنتی ہے جبکہ 4.8 ملین شامی اس بحران کی وجہ سے بیرون ملک مہاجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق شامی خانہ جنگی کی وجہ سے ملک میں موجود باقی آبادی میں سے زیادہ تر کو امداد کی اشد ضرورت ہے۔ شامی مہاجرین زیادہ تر ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، ترکی اور عراق میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بہت سے شامی پرسکون زندگی کی تلاش میں یورپ کا رخ کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔
شہروں کی تباہی
شام کا سب سے بڑا شہر اور سابقہ تجارتی مرکز حلب تباہ ہو چکا ہے۔ اس شہر کے تاریخی بازار اور مسجد امیہ بھی بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ گیارہوں صدی عیسوی کی اس مسجد کے مینار گر چکے ہیں۔ شامی خانہ جنگی سے حلب کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
حمص شام کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ بھی خانہ جنگی کے دوران شدید متاثر ہوا ہے۔ اس تاریخی شہر کی عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں جبکہ اب یہ شہر کھنڈر کی مانند دکھائی دیتا ہے۔
اسی طرح دمشق کے نواح میں واقع دوما، جوبر اور حرستا بھی تباہی کے مناظر پیش کر رہے ہیں۔ ان شہروں پر باغیوں کا قبضہ ہے، جہاں شامی فورسز اور باغی مسلسل متصادم ہیں۔
عالمی بینک کی سن 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق شام کے چھ شہروں حلب، درعا، حما، حمص، ادلب اور لاذقیہ میں ہونے والے نقصان کا تخیمہ 3.6 تا 4.5 بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔
تاریخی ورثے کا نقصان
شامی خانہ جنگی کے دوران اس ملک میں یونیسکو کے عالمی ورثے کے حامل مقامات یا تو بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں یا تباہ ہو گئے ہیں۔ حلب کا تاریخی شمالی علاقہ، جنوبی شہر بصری، حمص میں واقع قلعہ الحصن اور پالمیرا کے کھنڈرات تمام عالمی ورثے میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام قدیمی مقامات یا تو لڑائی میں متاثر ہوئے یا جہادیوں نے انہیں دانستہ طور پر تباہ کر دیا ہے۔
دو ہزار سال پرانا معبد بل، رومن دور کے نوادرات اور دیگر تاریخی و قدیمی اثاثوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ حما میں واقع آفامیا اور ادلب کے تل مردیخ نامی تاریخی مقامات کے علاوہ دیر الزور کے دورا اوربوس اور ماری کے قدیمی مقامات بھی اس جنگ کی نذر ہو گئے ہیں۔
اقتصادی مشکلات
ابھی تک درست اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ شامی خانہ جنگی کی وجہ سے کتنا مالی نقصان ہو چکا ہے۔ چیریٹی گروپ ورلڈ وژن اور فرنٹیئر اکنامکس کے ماہرین کے مطابق شامی خانہ جنگی کی وجہ سے اب تک کم ازکم 275 بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شامی خانہ جنگی اگر 2020ء تک چلی تو مجموعی مالی نقصانات کی لاگت 1.3 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سن 2014 کے وسط تک شام میں نقصانات کا تخمینہ 70 تا 80 بلین ڈالر تھا۔ تاہم سن دو ہزار چودہ کے بعد شام میں تباہی کا پیمانہ بڑھا ہی ہے۔
علاقائی سطح پر مسائل
شامی بحران کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے وہاں سے فرار ہو کر دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ اردن، ترکی، لبنان اور عراق میں شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
ان مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے ان ملکوں کی حکومتوں پر اضافی مالی بوجھ تو پڑ ہی رہا ہے لیکن ساتھ ہی انہیں انتظامی مسائل کا سامنا بھی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق شامی مہاجرین کے بحران کی وجہ سے صرف اردن کو ہی سالانہ بنیادوں پر 2.5 بلین ڈالر کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
عراق پہلے ہی مسائل کا سامنا کر رہا ہے جبکہ لبنان بھی اس بحران پر قابو پانے میں شدید مسائل کا شکار ہے۔ ترکی نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ اب اپنے ہاں مزید شامی مہاجرین کو پناہ دینے کا اہل نہیں رہا۔