شامی خانہ جنگی کے دوران 2022ء سب سے کم خونریز سال رہا
31 دسمبر 2022شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق سن دوہزار بائیس میں شامی خانہ جنگی میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد تین ہزار آٹھ سو پچیس رہی۔ سن دو ہزار اکیس میں اس تنظیم نے پہلے سالانہ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تین ہزار سات سو چھیالیس بتائی تھی، تاہم بعد میں اس تعداد میں ترمیم کر کے اسے تین ہزار آٹھ سو بیاسی کر دیا گیا تھا۔
ماسکو میں ترکی اور شام کے وزرا ئے دفاع کی برسوں بعد ملاقات
پناہ کے متلاشی افراد کے لیے جرمن ’بینیفٹ ایکٹ‘ سے مستفید ہونے والوں میں اضافہ
سن دو ہزار گیارہ میں حکومت مخالف مظاہروں سے شروع ہونے والا شامی داخلی تنازعہ پچھلے تین برسوں میں کم شدت کے باوجود جاری رہا۔ گزشتہ بارہ ماہ میں بھی ملک کے مشرقی حصوں میں جہادیوں کے حملے وقفے وقفے سے جاری رہے۔
آبزرویٹری کے مطابق عنقریب ختم ہوتے ہوئے سال 2022ء میں شام میں ہلاک ہونے والوں میں سولہ سو ستائیس عام شہری بھی تھے، جن میں تین سو اکیس بچے شامل تھے۔
آبزرویٹری کا دعویٰ ہے کہ ان ہلاکتوں میں دو سو نو افراد جن میں نصف تعداد بچوں کی تھی، باردوی سرنگوں یا دھماکا خیز مواد کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ شام میں حکومتی فورسز کے چھ سو ستائیس جب کہ بشارالاسد حکومت کے حامی دیگر گروپوں کے دو سو سترہ افراد مارے گئے۔ آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں کرد قیادت میں شامی ڈیموکریٹک فورسز کے تین سو ستاسی ارکان بھی شامل ہیں اور پانچ سو سے زائد جہادی بھی۔
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کئی افراد کی ہلاکت کی وجہ اس تنازعے سے جڑا انتشار ہے جب کہ درجنوں افراد اسرائیلی فضائی حملوں میں بھی ہلاک ہوئے۔
عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ شامی صحرائی خطے میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے حملوں میں بھی درجنوں افراد مارے گئے۔
شام میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری اس خانہ جنگی میں اب تک تقریباﹰ نصف ملین افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ شام کی کل آبادی کا نصف بے گھر ہو چکا ہے۔
ابتدا میں اسد حکومت نے ملک کے زیادہ تر حصے کا قبضہ کھو دیا تھا، تاہم روسی مدد سے اب دمشق حکومت ملک کے بیشتر علاقوں پر قبضہ دوبارہ حاصل کر چکی ہے۔
ع ت / م م (اے ایف پی)