شامی فوج کے حمص میں چھاپے، کم از کم ایک شہری ہلاک
11 جولائی 2011شام کے تیسرے سب سے بڑے شہر حمص میں چھاپوں کے دوران فوج کو ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی بھی مدد حاصل تھی۔ یہ کارروائی اپوزیشن کی طرف سے ’قومی مذاکراتی عمل‘ کے بائیکاٹ کے فیصلے کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے۔
حمص کے ڈسٹرکٹ باب الصباء کے رہائشی لیاد نے، جو پیشے کے اعتبار سے لیکچرر ہیں، خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا:’’مظاہروں کے بعد فوج کی طرف سے چھاپے اور گھر گھر گرفتاریوں کا سلسلہ معمول بن گیا ہے تاہم اس مرتبہ ان کی طرف سے مرکزی علاقوں میں رات بھر فائرنگ جاری رہی۔‘‘ لیاد کے مطابق حمص میں گزشتہ ہفتے گرفتار کیے جانے والے سینکڑوں شہریوں میں جلال النجر بھی شامل ہیں، جو ایک معروف نیورو سرجن ہیں۔
شام میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم ’دی سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق سکیورٹی فورسز نے رات بھر بکتر بند گاڑیوں میں لگی مشین گنوں سے گنجان آباد مرکزی علاقوں میں فائرنگ کی اور متعدد افراد کو گرفتار کیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق حمص سے 50 کلومیٹر شمال میں واقع شہر حما میں بھی سکیورٹی فورسز نے گھر گھر گرفتاریاں کی ہیں تاہم وہاں سے ابھی تک کسی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے سکیورٹی فورسز کے چھاپوں کے دوران زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شامی جیلوں میں 12 ہزار سے زائد سیاسی قیدی موجود ہیں۔
شامی صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی مظاہروں کے آغاز کے چار ماہ بعد حکومت کی طرف سے اعلان کردہ دو روزہ قومی مصالحتی مذاکرات جاری ہیں۔ اس بات چیت میں ملکی اپوزیشن کے اہم ترین سیاسی گروپ حصہ نہیں لے رہے۔ ان اپوزیشن گروپوں کا کہنا ہے کہ جب تک حکومتی سکیورٹی دستے پُر امن مظاہرین پر فائرنگ کرتے رہیں گے اور جمہوریت کا مطالبہ کرنے والوں کو شر پسند عناصر قرار دیا جاتا رہے گا، اپوزیشن اس مکالمت کا بائیکاٹ جاری رکھے گی۔
شام کے نائب صدر فاروق الشارع کی قیادت میں دمشق میں اس دو روزہ مکالمت میں کُل قریب دو سو شخصیات حصہ لے رہی ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی