شامی مہاجرین اور ہسپانوی مصور کے فن پارے
18 مئی 2016امید ہے کہ لندن کے کرسٹی نیلام گھر میں میرو کے ان فنی شاہکاروں کی فروخت سے پچاس ہزار یورو تک اکٹھے کیے جا سکیں گے، جو فلاحی تنظیم ریڈ کراس کے حوالے کیے جائیں گے۔
بار سلونا کے مصور خوان میرو کے پوتے خوان پونیت میرو نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تصاویر کی فروخت سےحاصل ہونے والی آمدنی بطور عطیہ دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے دادا میرو کی بھی یہی خواہش ہوتی۔
خوان پونیت میرو کا کہنا تھا، ’’میں خود کو اپنے دادا کی خواہشات کا علم بردار سمجھتا ہوں۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے۔ میرو نے اپنی زندگی میں بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ انہوں نے بھوک اور پیاس برداشت کی اور ہسپانوی سول جنگ کے زمانے میں جلا وطنی کاٹی۔‘‘
میرو 1936ء کی سول خانہ جنگی کے دوران جنوبی فرانس میں سرحد پارکیمپوں میں رہنے والے ہسپانوی مہاجرین کی مشکلات سے بھی آگاہ تھے اور ان تقریباﹰ دو ہزار مہاجرین کے مسائل سے بھی آگاہ تھے، جنہیں ونی پیگ نامی دخانی بحری جہاز پر فرانس سے چلی ہجرت کرنی پڑی تھی۔
جب اسپین میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا، اس وقت میرو فرانس میں تھے۔ جمہوری طرز حکومت کے حمایتی میرو نے تب پیرس میں ہی قیام کا فیصلہ کیا، جہاں ان کی اہلیہ اور بیٹی بھی ان کے پاس آگئے تھے اور اس خاندان نے 1940ء تک اسی ملک میں سکونت اختیار کیے رکھی۔ تاہم نازی جرمنی کے حملے کے بعد یہ خاندان واپس اسپین چلا گیا۔
میرو کے پوتے کا کہنا تھا کہ خوان میرو ہمیشہ پسماندہ اور جلاوطن افراد کی مدد کرنا چاہتے تھے اور وہ آج بھی اس حقیقت سے باخبر ہوتے کہ جو کچھ آج شام میں ہو رہا ہے، کل اسپین بھی اسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔
2011ء میں جب سے شام کا تنازعہ شروع ہوا ہے قریب 4.8 ملین افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔
بارسلونا میں قائم جنگ کے موضوع پر بنائی جانی والی تصاویر کی نمائش کے لیے مشہور ’مایورل گیلری‘ بھی مہاجرین کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس ضمن میں اس نے کئی مقامات پر خوان میرو کے فنی کام کی نمائش کا اہتمام کیا ہے۔