شامی مہاجرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کی ضرورت ہے، بان کی مون
30 مارچ 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے تیس مارچ بروز بدھ جنیوا میں کہا ہے کہ تمام ممالک شامی مہاجرین کی آباد کاری میں مدد فراہم کریں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مہاجرت (یو این ایچ سی آر) کی زیر پرستی میں منعقد کی جانے والی اس کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے بان کی مون نے کہا کہ اس وقت مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے یک جہتی دِکھانے کا وقت ہے۔
اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ آئندہ تین برسوں کے دوران کم از کم چار لاکھ اسّی ہزار مہاجرین کی آباد کاری کو ممکن بنایا جائے۔ ان شامی مہاجرین کا کم از کم دس فیصد شام کے ہمسایہ ممالک میں ہی پناہ گزین ہے۔ اس بحران کی وجہ سے یورپ کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔
بان کی مون نے جنیوا میں سفارتکاروں سے خطاب میں کہا کہ شامی مہاجرین کی بہبود کے لیے نئے عہد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں ان مہاجرین کی آبادی کاری کے علاوہ ان کے کنبوں کا ملاپ، تعلیم، انضمام اور ملازمت کے مواقع بھی فراہم کیے جانا چاہییں۔
نوّے ممالک کے سفارتکاروں سے خطاب میں بان کی مون نے کہا، ’’ہم اس وقت کے سب سے بڑے بحران کے حل کی کوششوں کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شامی مہاجرین کو ایسے مواقع فراہم کیے جانا چاہییں، جن کی مدد سے وہ اپنی زندگیوں کو بہتر انداز میں گزانے میں کامیاب ہو سکیں۔
جنیوا میں منعقد کی جا رہی اس کانفرنس کا مقصد بھی یہی ہے کہ شامی مہاجرین کی آبادی کاری کے حوالے سے ایک نئی حکمت عملی وضع کی جائے اور زیادہ سے زیادہ ممالک کو اس عمل میں شریک کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اب نئی کوشش یہ ہے کہ ایسے ممالک کو بھی شامی مہاجرین کی آباد کاری کے حوالے سے ساتھ ملایا جائے، جو ابھی تک اس سے دور ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے اعدادوشمار کے مطابق ہر دسویں میں سے ایک شامی مہاجر کو آباد کاری کی ضرورت ہے۔ اس ذیلی ادارے کے سربراہ فلیپو گرانڈی نے کہا ہے کہ موجودہ وقت میں مہاجرین شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ’’ہمیں اس بحران کا انسانی، منصفانہ اور قابل عمل حل تلاش کرنا ہو گا۔‘‘ گرانڈی کے بقول اگر عالمی برادری متحد ہو جاتی ہے تو یہ کوئی مشکل کام ثابت نہیں ہو گا۔
شام کا بحران چھٹے سال میں داخل ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس تنازعے کی وجہ سے کم از کم دو لاکھ پچاس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ پانچ ملین شامی مہاجرین دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ہمسایہ ممالک یعنی ترکی، لبنان، عراق اور اردن میں عارضی پناہ گاہوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
گرانڈی کے مطابق اگر یورپ لبنان کی طرح اپنی آبادی کے تناسب سے مہاجرین کی آباد کاری پر رضا مند ہوتا ہے تو اسے سو ملین مہاجرین کو جگہ دینا ہو گی۔ لبنان کی کل آبادی چار ملین ہے جبکہ اس وقت وہاں ایک ملین شامی مہاجرین موجود ہیں۔ اس باعث بیروت حکومت کو شدید انتظامی مسائل کا سامنا بھی ہے۔