شامی کریک ڈاؤن پر مغرب کی تنقید اور اسد حکومت کا واویلا
27 ستمبر 2011اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے مغربی ملکوں کی جانب سے ان کے ملک میں جاری کریک ڈاؤن کی پالیسی پر تنقید کو مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام ان کے ملک میں افراتفری پھیلا کر اس کو دو لخت کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ شامی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مغربی طاقتیں ان کے ملک میں مداخلت کا جواز ڈھونڈ رہی ہیں۔ ولید المعلم کے مطابق ان کے ملک کے مختلف مذہبی گروہوں کی مالی معاونت کے علاوہ انہیں اسلحے کی فراہمی اور اشتعال دلانے کا عمل جاری ہے۔
جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کا کہنا تھا کہ شام کے بہادر مرد اور خواتین کے ساتھ وہ اظہار یک جہتی کرتے ہیں جو صدر بشار الاسد کے ظالمانہ کریک ڈاؤن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ویسٹر ویلے نے اسد حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کی مذمت بھی کی۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ Yang Jiechi نے بھی شام میں حکومتی کریک ڈاؤن کی پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ شام کی صورت حال کا دانشمندی سے جائزہ لے کر اسے حل کرنے کی کوشش کرے تا کہ شام میں مزید انتشار کو روکا جا سکے جو اب علاقائی امن کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔
دوسری جانب شام کی اندرونی صورت حال پر نگاہ رکھنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومتی فوج نے ان چار فوجیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا ہے جو کریک ڈاؤن کی پالیسی کے خلاف اپنی وردیاں پھینک چکےتھے۔ ان فوجیوں کو ادلِب کے علاقے معار شمسہ میں ہلاک کیا گیا۔ وسطی شامی علاقے کے شہر راستان میں بھی فوج نے ٹینکوں کی مدد سے فوج چھوڑنے والوں کے خلاف کارروائی کی۔ شام کے کئی علاقوں میں باغی فوجیوں نے سرکاری فوج کے قافلوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ شامی فوج اب شہروں کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں کے قریبی دیہات تک پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں حمص کے قریبی دیہات میں ایک درجن سے زائد افراد کو ہلاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ پندرہ افراد کو خفیہ ادارے اپنے ساتھ لے گئے ہیں اور ان کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہیں ہے۔ اسی طرح ادلِب کے دیہات میں بھی فوج نے ایک درجن سے زائد گرفتاریاں کی ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: حماد کیانی