انسانی حقوق پر ان تھک کام کرنے والی درویش منش مہناز عرفان، جنہیں ہم اپنی گاڈ مدَر سمجھتے ہیں، نے چاہا کہ ماہواری کے وہ سب قصے، جو ہم ہر وقت لکھتے ہیں، کسی اجتماع میں سنائیں اور حاضرین و ناظرین رو برو حظ اٹھائیں۔ ایسی تقریب پیڈ بنانے والی کمپنی سے بہتر کوئی اور کون کروا سکتا تھا؟ لیکن حیرت سے آسمان سر پر ٹوٹ پڑا، جب پیڈ بیچنے والوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پیڈز خاکی لفافے کے محتاج ہیں، اسی طرح ماہواری بھی شرم و حیا کے پردے کے پیچھے ہی رہنی چاہیے۔
یقین مانیے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ شرم و حیا کے پردے سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ تو نہیں، جو بقول اکبر الہ آبادی مردوں کی عقل پہ پڑا کرتا ہے۔ اکیسویں صدی کی دنیا میں ایسی باتیں وہی کر سکتے ہیں، جن کا سفر الٹے پاؤں طے ہو رہا ہو۔
ان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ پردے کے پیچھے ہی رہیں لیکن ہماری رو بہ رو ملاقات ہائی کورٹ کی وکیل پی ایچ ڈی ڈاکٹر صاحبہ سے ہو گئی، جنہوں نے بھرے میلے میں فخریہ اور بلند و بانگ لہجے میں اعلان کیا کہ یونیورسٹی میں اپنے طالب علموں کو قانون پڑھاتے ہوئے وہ بہت سے سوشل ایشوز پہ بات کرتی ہیں۔ جس موضوع پہ وہ خوب بولتی ہیں اور گرج برس کے بولتی ہیں، وہ ہے لڑکیوں کی شرم و حیا! ایسا زیور، جو لڑکیوں کو ہر وقت زیب تن کرنا چاہیے۔ یہی شرم و حیا اچھی لڑکیوں کی پہچان ہے۔
کافی دیر حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں لگا کر ہم سوچتے رہے کہ کہیں یہ وہی شرم کا پردہ تو نہیں، جس کی طرف پیڈز کمپنی کے سی ای او نے اشارہ کیا تھا؟ خاکی لفافوں میں لپٹی شرم و حیا؟ آخر معنی کیا ہیں شرم و حیا کے اور لڑکیوں کو شرم و حیا کی نصیحت کرنے کا مطلب کیا نکلتا ہے؟ کیا ماہواری کا ذکر سرگوشیوں میں کیا جانا شرم و حیا ہے یا اپنے جسم کی تکالیف کو شرمناک سمجھتے ہوئے چھپا کر رکھا جانا؟
شرمناک حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں عورت کے نارمل طبعی، حقیقی جسمانی معاملات کا ذکر اور تکالیف شرمناک سمجھی جاتی ہیں لیکن اس وقت تک جب تک وہ مرد کی عملداری میں شامل نہ ہو۔ مالک کا ٹھپہ لگتے ہی بھڑکیلے لباس میں دلہن، پھولوں سے مہکتی سیج کا انتظام، معنی خیز مسکراہٹیں اور اشارے کسی کے لیے شرمناک نہیں رہے۔ شب زفاف سے اگلے مہینے ہی خوشخبری کا انتظار کرنے والوں کے لیے بھی شرم کا اب کوئی سوال نہیں۔
جونہی مرد نے عورت کو حاملہ کیا، دوسرے لفظوں میں اس کی ماہواری کے کھیت میں بیج ڈالا، صورت حال ہی بدل گئی۔ اب معاشرے کے کسی دستور، قانون، رواج، فرد یا طبقے کو نوعمر لڑکی کے حمل سے کسی قسم کی شرم نہیں۔ عورت کا اپنے جسم کی حدود پار کر کے عیاں ہوتا پیٹ کسی کے لیے شرمناک نہیں۔ کیونکہ اب معاملہ ماہواری کا نہیں رہا، ماہواری کو بارآور کرنے والے بیج کے مالک کا ہے، جو باپ کے رتبے پر فائز ہونے جا رہا ہے۔ پھولے ہوئے پیٹ والی عورت بھی اب شرمناکی کی حد سے نکل چکی۔ زچگی کے درد سے تڑپتے اور مالک کا بچہ جننے والی عورت کو شرم و حیا کا سبق کیسے دیں گے آپ؟
شوہر کی ملکیت میں آنے سے پہلے ہر بات شرمناک اور نکاح کی مہر لگ جانے کے بعد لبوں پر قفل بندی، کیا منافقت ہے بھئی؟ سوچیے اگر لڑکیوں نے اس طرح کے جھوٹی اور مصنوعی شرم و حیا کے درس لے کر ہی عملی زندگی میں داخل ہونا ہے، اپنے جسم اور شناخت کے متعلق آگہی بھی مقفل دروازوں کی مرہون منت رہنی ہے، معاملات پوشیدہ اور غیر پوشیدہ لیبلز کی چھتری کے نیچے بٹنے ہیں، تو وہ کون سے حقوق ہیں، جو اسے ملیں گے؟
فیمینزم کی جنگ لڑتے ہوئے معاشرے میں اگر عورت اپنے ہی جسم کی بنیاد سے آنکھیں چرانے پر مجبور ہو تو ہمیں سوچنا پڑے گا کہ حقوق اور آگہی کی اس جدوجہد میں عورت کہاں کھڑی ہے؟
ہمارے خیال میں فیمینزم کی عمارت کی بنیاد اور اساس گائنی فیمینزم ہے، جس میں عورت کو یہ اختیار ہو کہ وہ اپنے جسم کے مسائل کھلے عام بتا سکے، اس کی صحت کے امور معاشرے میں مقدم جانے جائیں، ماہواری، حمل اور زچگی کے امور کو چلمن کے پیچھے رکھ کر عورتوں کو موت کی شاہراہ پر گامزن نہ کیا جائے۔
یاد رکھیے! ایک تندرست جسم کی مالک ہی اپنا نقطہ نظر اور ما فی الضمیر احسن طریقے سے پیش کر سکتی ہے۔ اپنے جسم کی کھٹنائیوں سے الجھتی اور شرم کے پردے میں چھپتی بے اعتماد عورت معاشرے کو کیا دے سکتی ہے بھلا؟