شمالی عراق: ایران کی احتجاجی تحریک کا ایک نیا مرکز؟
20 نومبر 2022ایران نے حال ہی میں شمالی عراق میں چند مقامات پر بمباری کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے پیچھے شمالی عراق کے''دہشت گرد‘‘ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟
اقوام متحدہ میں ایران کے مندوب نے اکتوبر کے وسط میں سلامتی کونسل کے نام ایک ڈرامائی خط تحریر کیا، جس میں تہران حکومت نے اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی کہ عراقی سرحدی علاقے میں موجود دہشت گرد گروپوں نے ایران میں پُر امن مظاہرین کو اکسایا۔ ایران کے بقول یہ گروپ ''دہشت گردی‘‘ کے مذموم مقاصد رکھتے ہیں۔ یہ خط اس وقت بھیجا گیا جب ایران نے ہمسایہ ملک عراق کے چار علاقوں پر بمباری کی تھی اور اس کارروائی کے لیے سرحدی علاقے میں 70 سے زیادہ میزائل داغے تھے۔
سرحد پر یہ حملہ 1990ء کی دہائی کے بعد سے ایران کی بیرون ملک سب سے بڑی کارروائی تھی۔ اس کے نتیجے میں، ایک اندازے کے مطابق شمالی عراق میں ایک بچے سمیت 16 افراد مارے گئے، تقریباً 60 زخمی ہوئے اور سینکڑوں بے گھر ہو گئے۔ ہیومن رائٹس واچ نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران نے ان مقامات پر حملہ کیا، جہاں کوئی فوجی سرگرمی نہیں ہو رہی تھی اور ایرانی حملوں کا نشانہ جو علاقے بنے ان میں ایک اسکول اور کچھ رہائشی علاقے شامل تھے۔
ایران: 'ہنگامہ آرائی‘ کے جرم میں ایک شخص کو سزائے موت سنا دی گئی
مظاہرین کی قیادت عراق میں نہیں
یہ ایک حقیقت ہے کہ عراق میں ایران مخالف ملیشیا اور سیاسی جماعتیں موجود ہیں لیکن کیا واقعی ان کا ایران میں جاری حکومت مخالف مظاہروں سے کوئی تعلق ہے؟
انسانی حقوق کے ایک وکیل فراز فیروزی، جو ناروے میں قائم کرد تنظیم ''ہینگاو آرگنائزیشن‘‘ کے ترجمان بھی ہیں، کہ بقول، ''مظاہرین میں شاید کچھ ایسے لوگ ہیں جو سیاسی جماعتوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن کوئی احتجاجی قیادت ایسی نہیں، جو ان میں سے کسی سے وابستہ ہو۔‘‘ فراز فیروزی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''زیادہ تر نوجوان ہیں۔ خواتین، طالب علم ہیں، جو سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ اس لیےعراق کے اندر سے انقلاب کی منصوبہ بندی کے بارے میں تہران حکومت کے الزامات کی حمایت میں کوئی واضح ثبوت نہیں پایا جاتا ہے۔‘‘
ایک کرد صحافی اور ''کرد پیس انسٹی ٹیوٹ‘‘ سے وابستہ ریسرچ فیلو کمال خمینی کا کبھی یہی کہنا تھا، ''مظاہرین میں شاید سیاسی جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والے کچھ لوگ ضرور ہوں گے، لیکن کوئی احتجاجی قیادت سے وابستہ نہیں۔‘‘
برلن: جمہوریت حامیوں کا ایرانی سفارت خانے پر مظاہرہ، متعدد زخمی
کرد صحافی کا کہنا تھا کہ یہ سب ایرانی حکومت کر رہی ہے اپنے موجودہ سیاسی مسائل کو ''برآمد‘‘ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کمال نے مزید کہا کہ ایران احتجاج کا الزام بیرونی عناصر کے ساتھ ساتھ اپنی کرد نسلی اقلیت پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وسیع تر منظر نامہ
تامر بداوی عراقی نیم فوجی دستوں پر تحقیق کرنے والے ایک آزاد تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''ایران میں مظاہروں کے علاوہ عراق پر ایران کے تازہ ترین حملوں کی وجوہات پر غور کرنا اور اس کے اہم ہونے کو عراق کے اندرونی محرکات کے ضمن میں دیکھنے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔‘‘ بداوی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی کہ یہ اقدام ایرانی حکومت کو عراق میں کرد سیاستدانوں پر مزید دباؤ ڈالنے کی اجازت دیتا ہے۔ بداوی نے زور دیا کہ احتجاج شروع ہونے سے پہلے ہی، عراقی کرد علاقوں پر ایران سے مہلک حملوں میں اضافہ ہوا تھا۔
تجزیہ کار بداوی نے مزید کہا کہ بغداد میں حالیہ سیاسی تعطل، جہاں عراقی کرد سیاستدانوں نے ایران کی حمایت یافتہ جماعتوں کے خلاف مقامی امیدوار کا ساتھ دیا، بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ بداوی کے بقول ایران کرد سیاستدانوں کو اس اُمیدوار کی حمایت کرنے اور بغداد میں نئے قوانین کی تعمیل کو یقینی بنانے کی سزا دے رہا ہو۔
فرانس کا اپنے شہریوں کو جلد از جلد ایران چھوڑنے کا مشورہ
عراق پر حملوں کے تناظر میں ایران ترکی کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ ترکی نے عراق کے اندر کرد ملیشیا کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کے بارے میں انقرہ کا کہنا ہے کہ یہ گروپ کردستان ورکرز پارٹی، یا PKK کی طرح ترکی کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ اس سال جولائی تک ترکی نے عراق میں 190 کے قریب ترک فضائی حملے کیے ہیں۔
مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی حملے جاری رہ سکتے ہیں۔ ایران کچھ عرصے سے یہ کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح عراقی کرد سیاست دان ایرانی کرد سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کریں۔
اب تک عراقی کردوں نے ایرانی مخالفین کو نکالنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن اگر مزید ایرانی آنا شروع ہو گئے تو یہ ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے، ''زیادہ دباؤ زیادہ لوگوں کو عراقی کردستان میں منتقل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
کیتھرین شیئر/ ک م/ ع ا