شمالی کوریا پر پابندیوں کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس
16 جنوری 2018خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس اجلاس میں اُن 20 ممالک کے وزرائے خارجہ اور سینئر حکام شریک ہو رہے ہیں جنہوں نے دونوں کوريائی ممالک کے درمیان ہونے والی جنگ میں جنوبی کوریا کا ساتھ دیا تھا۔ آج منگل 16 جنوری کو ہونے والے اس اجلاس کے میزبان امریکا اور کینیڈا ہیں اور اس کا مقصد ایسے اقدامات پر غور کرنا ہے جن کے ذریعے شمالی کوریا پر سفارتی اور معاشی دباؤ استعمال کرتے ہوئے اُسے اپنے جوہری اور میزائل پروگراموں سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔ شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایسے دور مار میزائل تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جو امریکا تک پہنچ سکیں اور اسی باعث عالمی سطح پر ایک نئی جنگ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
کینیڈا اور امریکا کے حکام کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ میں اس بات پر بھی غور کیا جائے گا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے شمالی کوریا پر لگائی گئی پابندیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے جائے۔ ان میں وہ پاپندیاں بھی شامل ہیں جن پر گزشتہ ماہ اتفاق ہوا تھا اور جن کے مطابق پیونگ یانگ حکومت کی پٹرولیم منصوعات، خام تیل اور صنعتی اشیاء تک رسائی کو محدود کر دیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ڈائریکٹر برائے پالیسی اور منصوبہ بندی برائن ہُک نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وینکوور میں ہونے والے اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن سمیت دیگر شرکاء اس بات پر غور کریں گے کہ شمالی کوریا کے ارد گرد بحری سکیورٹی کو کیسے مضبوط بنایا جائے اور ایسے جہازوں کو روکا جا سکے جو پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ممنوعہ اشیاء شمالی کوریا تک پہنچا سکتے ہیں۔
وینکوور میں ہونے والے اس اجلاس میں جاپان اور جنوبی کوریا کے علاوہ وہ ممالک شریک ہو رہے ہیں جنہوں نے 1950-53 کی کوریائی جنگ میں جنوبی کوریا کی مدد کی تھی۔ چین اور روس نے بھی اُس جنگ میں جنوبی کوریا کی حمایت کی تھی تاہم یہ دونوں ممالک وینکوور اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے۔
یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران پہلی مرتبہ دونوں کوریاؤں کے نمائندوں کے درمیان گزشتہ ماہ با قاعدہ مذاکرات ہوئے تھے۔ ان مذاکرات کے بعد پیونگ یانگ نے یہ حامی بھری تھی کہ وہ آئندہ ماہ جنوبی کوریا کے شہر پیونگ چینگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس میں شرکت کے اپنے کھلاڑی روانہ کرے گا۔