شمالی کوریائی فوجی مشقیں، تناؤ میں اضافہ
26 نومبر 2010کوریائی جزیرہ نما میں تناؤ کی صورت حال بدستور قائم ہے۔ اس میں جمعہ کے روز اس وقت اضافہ دیکھا گیا، جب شمالی کوریا کی توپوں کے فائر کی آوازیں بحیرہ زرد کی متنازعہ سمندری حدود میں واقع جزیرے یون پیونگ میں واضح طور پر سنی گئیں۔ اس پر عام شہریوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا اور وہ پناہ گاہوں کی جانب بھاگنے لگے۔ تصدیق کی گئی ہے کہ شمالی کوریائی توپوں کے گولے یا ان کا کوئی چلا ہوا حصہ جنوبی کوریائی سرزمین پر نہیں گرا۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں اس خبر کے نشر ہونے کے بعد عوام میں باقاعدہ افراتفری دیکھی گئی۔
شمالی کوریا کے اندر میڈیا اور اخبارات خاصے سخت لہجے میں صورت حال کو بیان کر رہے ہیں، جو جنگ کی کیفیت کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے۔ کمیونسٹ ملک کے دارالحکومت پیونگ یانگ میں سرکاری میڈیا واضح اشارے دے رہا ہے کہ کوریائی خطہ آہستہ آہستہ جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے اور شمالی کوریا ئی عوام اور فوج جنوبی کوریا کی ’کٹھ پتلی‘ حکومت کی جانب سے پیدا شدہ جارحانہ صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے چوکس ہو چکی ہے۔ دونوں اطراف کے شہری پریشان و بےچین دکھائی دیتے ہیں۔ اس کیفیت میں کوریائی خطے کے عوام کی طرح مشرق بعید کی تمام مالی منڈیاں بھی نااُمیدی کی گرفت میں ہیں۔ عالمی سٹاک مارکیٹوں میں بھی اس کشیدگی کے منفی اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کے ہاں مالی نقصان کی وجہ سے بیزاری کی کیفیت نظر آ رہی ہے۔
اس دوران جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ بک نے ایک سابقہ فوجی افسر Kim Kwan-jin کو اپنے ملک کا نیا وزیر دفاع مقرر کر دیا ہے۔ نئے وزیر دفاع جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سابق چیئرمین ہیں اور پیشہ ور فوجی ہونے کی وجہ سے دفاعی امور پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے اندر صدر بک کو اپوزیشن کی جانب سے واضح جبکہ حکومتی پارٹی کے اندر سے اِس ڈھکی چھپی تنقید کا سامنا ہے کہ شمالی کوریا کی توپوں کے فائر کے جواب میں جنوبی کوریا کی فوج نے تساہلی کا مظاہرہ کیا تھا۔ منگل کے وقوعے میں شمالی کوریا کی توپوں سے گولے پھینکے جانے کے تیرہ منٹ بعد جنوبی کوریائی فوج نے جوابی کارروائی کی تھی۔ سرحدی شہر Paju میں سینکڑوں سابقہ فوجیوں نے اس تاخیری فوجی رد عمل کے خلاف ایک ریلی بھی نکالی اور حکومت کو سست قرار دیا۔
اتوار کی امریکہ جنوبی کوریا فوجی مشقوں میں شمولیت کے لئے جنگی بحری جہاز جورج واشنگٹن کسی بھی وقت بحیرہ زرد پہنچ سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کی فوجیں مشقوں سے قبل کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
دوسری جانب امریکہ کی جانب سے چین پر سفارتی دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے کہ وہ اپنے اتحادی شمالی کوریا کو کنٹرول کرے۔ اس مناسبت سے گزشتہ روز امریکی اور جاپانی وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو میں بھی اتفاق کیا گیا تھا۔ امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کے حکام کے مطابق کوریائی خطے کی مجموعی صورت حال پر صدر باراک اوباما اپنے چینی ہم منصب ہو جن تاؤ سے ٹیلی فون پر بات چیت کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب چین نے شمالی کوریا کے لئے تعطلی کے شکار چھ ملکی مذاکراتی عمل کو ازسرنو شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی