170211 Desertec Nordafrika Energie
20 فروری 2011شمالی افریقہ اور مشرقِ وُسطیٰ میں سالانہ تقریباً تین ہزار گھنٹے دھوپ ہوا کرتی ہے۔ جرمنی کے مقابلے میں یہ تین گنا زیادہ ہے۔ وہاں شمسی توانائی کی مدد سے بجلی پیدا کرنے اور مشرقِ وُسطیٰ، شمالی افریقہ اور یورپ کو یہ بجلی فراہم کرنے کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے اگلے چار عشروں کے دوران 400 ارب یورو تک کی رقم درکار ہو گی۔ شمالی افریقہ میں سیاسی بے چینی کے واقعات کے بعد اب یہ سوال کیا جانے لگا ہے کہ آخر اِس طرح کے سیاسی طور پر غیر مستحکم خطّے میں اتنا زیادہ پیسہ کون لگائے گا؟
اِسی پس منظر میں ڈیزرٹیک منصوبے کی مجلسِ عاملہ کے چیئرمین پال فان سون کہتے ہیں: ’’اِسی لیے یورپ اور شمالی افریقہ کے درمیان پارٹنر شپ اِس قدر اہم ہے۔ مختلف ممالک انفرادی طور پر یہ کام نہیں کر سکتے لیکن یورپ اور شمالی افریقی ممالک کے درمیان زیادہ بھرپور اشتراکِ عمل اور معاہدوں سے استحکام میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ چیز اداروں کے بھی فائدے میں ہے۔‘‘
ڈیزرٹیک نامی منصوبے کی داغ بیل 2009ء میں ڈالی گئی تھی اور اِس کا مقصد شمالی افریقہ اور مشرقِ وُسطیٰ میں ہوا اور سورج سے توانائی حاصل کرتے ہوئے ایسے بجلی گھر تعمیر کرنا تھا، جو 2050ء تک اُس خطّے کی بجلی کی ضروریات کے ساتھ ساتھ یورپ کی توانائی کی 15 فیصد ضروریات بھی پوری کر سکیں۔ اس سلسلے کا پہلا بجلی گھر جرمنی کی مدد سے مراکش میں تعمیر ہو گا، جو پانچ سال کے اندر اندر 500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنا شروع کر دے گا۔ اِس میں سے ایک تہائی بجلی مراکش ہی میں استعمال ہو گی اور دو تہائی یورپ کو برآمد کی جائے گی۔
اِس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ شمالی افریقہ اور یورپ کو صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جائے۔ آج کل بجلی کی واحد لائن مراکش اور اسپین کے درمیان موجود ہے۔ تیونس اور اٹلی کے درمیان ایسی ہی ایک لائن کی تعمیر کا منصوبہ موجود ہے۔ جرمنی کے سابق وزیر ماحولیات کلاؤس ٹوئپفر، جو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، آج کل ڈیزرٹیک کنسورشیم کے مشیر ہیں۔ اُن کے خیال میں بجلی کی منتقلی کے لیے ایسی لائنیں تعمیر کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے: ’’اِس کے لیے مطلوبہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ہائی وولٹیج تکنیک کی آزمائش کی جا رہی ہے، خاص طور پر چین میں، جہاں ابھی سے پانچ ہزار کلومیٹر طویل لائنیں موجود ہیں۔ اگرچہ چین میں یہ لائنیں خشکی پر ہیں اور ہم یہاں سمندر کے نیچے لائنیں بچھانے کی بات کر رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ ممکن ضرور ہے۔‘‘
ڈیزرٹیک کنسورشیم کا آغاز چوٹی کے متعدد جرمن اداروں نے کیا تھا تاہم آج کل اِس میں یورپ اور شمالی افریقہ کے تقریباً پچاس ادارے شریک ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل