شمع سنیما کی فحش فلمیں اور حشیش بھرے سگریٹ
25 دسمبر 2013قبائلی علاقوں سے ملحق شہر پشاور کا شمع سنیما گزشتہ تیس برسوں سے پورنو اور شہوت انگیز فلمیں دکھا رہا ہے۔ اس سنیما کے فلم بین اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ منہ چھپا کر قریبی مارکیٹ یا بس اسٹیشن تک پہنچتے ہیں تاکہ انہیں پہچانا نہ جا سکے۔ اس سنیما کے عقبی کمرے میں روزانہ فحش فلموں کے تین شو دکھائے جاتے ہیں جبکہ مرکزی ہال میں صرف مین اسٹریم فلمیں دکھائی جاتی ہیں اور سنیما کے باہر تشہری بورڈ بھی انہی فلموں کے لگے ہوتے ہیں۔ اس سنیما میں فحش فلم بینوں کو ٹکٹ دو سو روپے میں فراہم کی جاتی ہے، ایک مسلح محافظ ان کی تلاشی لیتا ہے اور انہیں عقبی کمرے تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس ہال نما کمرے میں نقلی چمڑے والی کرسیوں کی تقریباﹰ بیس لائنیں ہیں، جن پر ہر کوئی ایک دوسرے سے ذرا ہٹ کر بیٹھنا پسند کرتا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق فحش فلمیں دیکھنے والوں میں زیادہ تر مزدور، بے روزگار نوجوان اور طالبعلم ہوتے ہیں۔
سیکس بِکتا ہے
آج اس سنیما میں ’دوستانہ‘ نامی فلم دکھائی جا رہی ہے۔ سیمی پروفیشنلز کی طرف سے بنائی گئی یہ فلم پاکستان کے شہر لاہور میں تیار کی گئی ہے۔ اس محبت بھری (سیکسی) فلم کے ہیرو کا نام شاہ سوار ہے۔ اُسے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی محبوبہ گُلپانہ سے شادی کرے یا پھر اپنی کزن دعا سے، جس کا انتخاب اس کے والدین نے کیا ہے۔ شاہ سوار یہ مشکل حل کرنے کے لیے اپنی ہونے والی دلہن کو ’’ٹیسٹ‘‘ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور دو گھنٹے دورانیے کی اس فلم کے زیادہ تر فحش سین اسی ’’ٹیسٹ‘‘ کے اردگرد گھومتے ہیں۔ فلم کے ختم ہونے سے پہلے اندھیرے کمرے سے چند ’مشکوک آوازیں‘ بھی سننے کو ملتی ہیں، سیکس بِکتا ہے۔
شمع سنیما پشاور کے کامیاب سنیماگھروں میں سے ایک ہے اور شاید اس کی کامیابی کا راز بھی یہی فارمولا ہے۔ بیس برس پہلے پشاور میں بیس سنیما ہال تھے اور اب صرف سات باقی بچے ہیں، ان میں سے بھی تین کبھی کبھار مین اسٹریم فلموں کے ساتھ ساتھ فحش فلموں کے کلپ بھی دکھاتے ہیں۔ شمع ایسی فلمیں دکھانے میں مشہور ہے اور ایک فحش فلم کی ٹکٹ بھی عام فلم کی نسبت تین سے چار گنا مہنگی بیچی جاتی ہے۔
مقامی پورنو گرافی
اس سنیما گھر کی کامیابی کا ایک راز مقامی سطح تیار کی جانے والی فحش فلمیں بھی ہیں کیونکہ پشاور میں ایسی مقامی فلمیں انٹرنیٹ یا پھر ڈی وی ڈی پر دستیاب نہیں ہیں یا پھر انتہائی مشکل سے ملتی ہیں۔ ’دوستانہ‘ فلم دیکھنے کے لیے دوسری مرتبہ آنے والے تیس سالہ خالق خان کا کہنا تھا، ’’میں دوسری مرتبہ یہ فلم دیکھنے کے لیے آیا ہوں۔ دیگر کئی مردوں کی طرح میں بھی انگریزی پورنو کی بجائے پاکستانی لڑکیوں کی فلمیں دیکھنا پسند کرتا ہوں۔‘‘ اس فلم کی اصل زبان پنجابی ہے لیکن اسے پشتو میں ڈب کیا گیا ہے۔
طاقتور مالکان
شمع سنیما پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں سیکس اور عریانیت کے معاملے میں عوامی رویے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کی ایک طاقتور مذہبی اور سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے ان سنیما گھروں کی بندش کا مطالبہ کر رکھا ہے لیکن سنیما مالکان بھی طاقتور ہیں۔ بلور فیملی نہ صرف طاقتور ہے بلکہ پختون نیشنلسٹ پارٹی (اے این پی) کا ستون تصور کی جاتی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹس شمع سنیما پر دو مرتبہ حملہ کر چکے ہیں لیکن اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ سن 2012ء میں اسے آگ لگا دی گئی تھی لیکن صرف ایک ماہ بعد عیدالاضحیٰ کے موقع پر اس کا ہال ایک مرتبہ پھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔
واپس آتے ہیں دوستانہ فلم کی طرف، جہاں غم اور شراب کے نشے میں ڈوبا شاہ سوار ابھی بھی یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ اس کے لیے کونسی لڑکی بہتر رہے گی۔ فلم کا اختتام آ چکا ہے اور وہ بھی یہ مشکل گتُھی سلجھانے میں کامیاب ہو گیا ہے، اس نے دونوں سے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔