شملہ، طالبہ کے ریپ اور قتل کا ملزم پولیس کی حراست میں ہلاک
20 جولائی 2017شملہ میں ہزاروں افراد نے اس مقدمے پر پولیس کے برتاؤ کے حوالے سے مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرین حکومت سے انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے شملہ کے بعض علاقوں میں کاروبار معطّل ہے۔
قریب ایک ہفتے قبل اس لڑکی کی مسخ شدہ لاش ایک جنگل سے ملنے کے بعد سے شملہ میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ پولیس اس معاملے کی تحقیقات میں ہیرا پھیری سے کام لے رہی ہے۔
اس کیس میں کشیدگی اُس وقت بڑھ گئی جب اس سنگین جرم کے ایک ملزم کو اُس کے سیل میں ایک دوسرے قیدی نے ہاتھا پائی کے دوران قتل کر دیا۔ ہماچل پردیش پولیس کے انسپکٹر جنرل ظہور ایس زیدی نے بتایا کہ نیپال سے تعلق رکھنے والے ایک قیدی سورج سنگھ نے لڑائی کے دوران ملزم کا سر دیوار سے ٹکرا دیا۔ زیدی کے مطابق،’’ ملزم کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اُس کی موت کی تصدیق کر دی۔‘‘
سولہ سالہ طالبہ کی جنسی زیادتی اور قتل کے مبینہ ملزم کی موت کی خبر سنتے ہی شملہ میں ہنگامے شروع ہو گئے جن میں غصے سے بھر پور مظاہرین کی جانب سے پولیس اسٹیشن اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ اس واقعے کی سفّاکی نے ہماچل پردیش کے رہائشیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
یاد رہے کہ ہمالیہ کی اس ریاست میں جنسی جرائم کی شرح تمام بھارت کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ قتل ہونے والی طالبہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ ریپ کرنے کے بعد گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کیا گیا جبکہ اُسکی ایک ٹانگ بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔
اس مقدمے میں ابھی تک چھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن انصاف مانگنے والوں کا کہنا ہے کہ پولیس کیس کی تفتیش درست طور پر نہیں کر رہی اور مرکزی مجرم اب بھی آزاد ہیں۔
مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے آج بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کو بتایا،’’ مرکزی مجرم اب بھی آزاد گھوم رہا ہے۔ بھلا پولیس کی حراست میں کوئی کیسے ہلاک ہو سکتا ہے؟‘‘
خواتین کے ریپ کے حوالے سے بھارت کا عالمی ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ ہر سال جنسی زیادتی کے قریب چالیس ہزار کیس درج کیے جاتے ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں ایسے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔