شہد کی مکھیوں سے آکوپنکچر، چین میں مقبول ہوتا ’علاج‘
19 اگست 2013چین میں ان دنوں تقریبا 27 ہزار افراد اس تکلیف دہ طریقہ علاج سے اس امید پر گزر رہے ہیں کہ وہ خود کو لاحق خطرناک بیماریوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس طریقہ علاج پر یقین رکھنے والے افراد بیجنگ میں وانگ مینگلِن کے کلینک میں بھی آ رہے ہیں، جہاں شہد کی مکھیوں کے ڈنک سے پور چھیدے جاتے ہیں۔
سائنسی حوالے سے ان مکھیوں کے ڈنک سے کسی آدمی کو الرجک اثرات سے بچانے کی کوشش کے سوا، اس طریقہء علاج کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مغربی دنیا میں اس ’ایپی تھراپی‘ کہلائے جانے والے طریقہ کار کو سائنسی مشاہدات، مفروضات اور تجربات سے ’چشم پوشی‘ اختیار کرنے کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔
بیجنگ کے نواح میں واقع اس کلینک سے وابستہ وانگ مینگلِن کا کہنا ہے، ’ہم مکھی کو سر کی جانب سے پکڑتے ہیں اور جسم کے مقررہ حصے پر رکھ کر سر کو اس وقت تک دباتے ہیں، جب تک شہد کی مکھی کا کانٹا نمودار نہیں ہو جاتا۔‘
وانگ کے مطابق اس علاج کے لیے مکھیاں خصوصی طور پر اٹلی سے درآمد کی جاتی ہیں اور کانٹے کے جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ مکھیاں مر جاتی ہیں۔
وانگ نے دعویٰ کیا،’ہم نے متعدد افراد بشمول سرطان کے مریضوں پر یہ علاج آزمایا اور اس کے نتائج ہمیشہ مثبت رہے۔‘
وانگ نے بتایا کہ شہد کی مکھی کا ڈنک نچلے دھڑ سے وابستہ بہت سی عام بیماریوں کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے متعدد احتیاطی تدابیر بھی بروئے کار لائی جاتی ہیں۔
تاہم سائنسی تحقیق اور ادویات سے متعلق امریکی ویب سائٹ سائنس بیسڈ میڈیسن ڈاٹ او آر جی کے مطابق ایسے دعویٰ ہمیشہ سے لوگوں کو دھوکا دینے اور ان سے پیسے بٹورنے کے لیے کیے جاتے رہے ہیں۔ ’سائنس کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ شہد کی مکھی یا اس کی مصنوعات کے براہ راست استعمال سے بیماریوں سے شفا حاصل کی جائے۔‘
امیریکن کینسر سوسائٹی نے بھی اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے، ’کلنیکل مطالعے میں ایسے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں، جن کو بنیاد پر کر کہا جا سکے کہ شہد کی مکھی یا اس کی مصنوعات سے سرطان کی بیماری کو ختم یا اس کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔‘
اس ویب سائٹ پر مزید کہا گیا ہے، ’ایسے طریقہ ہائے کار پر بھروسہ کرنا اور باقاعدہ معالجین یا ادویات کا استعمال نہ کرنا، صحت کے لیے انتہائی مضر ہو سکتا ہے۔‘