کانسی کے تاریخی دور میں جب مختلف تہذیبوں میں شہر وجود میں آئے تو اس کے نتیجے میں شہری ریاستوں کا نظام عمل میں آیا۔ سمیری تہذیب میں اُرک اور لوگاش کی ریاستیں تھیں۔ وادی سندھ میں ہڑپا اور موہنجوڈرو کے شہر آباد ہوئے۔ مصر میں Memphis اور Thebes کے شہر سیاست کا مرکز بنے۔ یونان میں Polis یا شہری ریاستوں کی تشکیل ہوئی، جن میں خاص طور سے ایتھنز، اسپارٹا اور Corinth قابل ذکر ہیں۔ ان شہروں میں رہنے والوں کو خاص طور سے شہریت دی جاتی تھی۔
ایتھنز میں ان افراد کو یہ مراعات ملتی تھیں یا ان افراد کو شہریت ملتی تھی، جنہوں نے شہر کے دفاع میں جنگ لڑی ہو۔ بعد میں صرف ان افراد کو شہریت دی جاتی تھی، جن کے ماں اور باپ ایتھنز کے شہری ہوں۔ رومی سلطنت میں بھی شہریت کے حقوق محدود تھے۔
شہروں کے قیام کے بعد ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ یعنی شہری آبادی اور دیہات: شہر کے لوگ خود کو دیہات میں رہنے والوں کی نسبت زیادہ افضل و برتر سمجھتے تھے۔ شہر اور دیہات کے فرق کی وجہ سے دو نقطہ ہائے نظر پیدا ہوئے۔
ایک یہ تھا کہ دیہات کے لوگ غیر مہذب ہیں اور شائستگی اور نفاست سے ناواقف ہیں۔ دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ دیہات پر امن اور سکون کی جگہ ہے۔ جہاں لوگ برادری کی شکل میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی اور رنج میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں شہر کے بارے میں بھی دو نظریات تھے۔ پہلا نظریہ یہ تھا کہ شہر تہذیب کو جنم دیتا ہے۔ فن وادب، مجسمہ تراشی اور موسیقی شہر کے کلچر کو دلکش بناتی ہے۔ اس کی بلند و بالا عمارتیں فن تعمیر کا اعل نمونہ ہوتی ہیں۔ اس کے تعلیمی اداروں میں سماجی علوم اور سائنس کے نئے افکار تخلیق ہوتے ہیں۔ اس کی سماجی زندگی میں بحث و مباحثہ سے لوگوں کی ذہنی تربیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر شہر کی خاص صنعت ہوتی ہے، جس کے کاریگر اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے اسے مشہور کر دیتے ہیں اور یہ اس شہر کی شناخت بن جاتی۔ شہر اپنے کاروبار اور اپنی تجارتی منڈیوں کی وجہ سے بھی غیر ملکیوں کے لیے باعث کشش ہوتے ہیں۔ شہر میں بولی جانے والی زبان بھی اپنی وسعت کے لحاظ سے تہذیب کا حصہ ہو جاتی ہے۔
شہر کی آبادی دیہات کی نسبت برادریوں میں تقسیم نہیں ہوتی ہے۔ یہ اجتماعیت کے بجائے انفرادیت پر زور د یتی ہے۔ ایک فرد کی شناخت، اس کے پیشے، فن اور علم کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ تاجر طبقہ جو دوسرے ملکوں اور شہروں سے تجارت کرتا ہے، ان تمام پابندیوں کو توڑتا ہے، جو تجارت کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہیں۔ ایسی تاجر طبقے نے عہد وسط کے فیوڈل ازم کا خاتمہ کیا، تاکہ دیہی علاقوں میں ان کے اثرورسوخ باقی نہ رہے اور وہ زرعی پیداوار کو تجارت کا ذریعہ بنا کر منافع حاصل کریں۔
شہروں ہی سے سرمایہ داری کی ابتدا ہوئی پہلے دور میں کمرشل سرمایہ داری تھی، جس میں تاجر ایک جگہ سے سستا مال خرید کر دوسری منڈی میں اسے مہنگا بیچتے تھے۔ صنعتی انقلاب کے بعد انڈسٹریل سرمایہ داری آئی، جس نے بورژہ طبقے کو پیدا کیا اور معاشرے کو طبقاتی بنا دیا۔
شہر کے بارے میں دوسرا نقطہ نظریہ ہے کہ دیہات کے مقابلے میں یہ بدعنوانیوں اور گناہوں میں ملوث ہے۔ یہاں نیکی اور پاک بازی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بھگت کبیر نے بنارس کے شہر کو چھوڑ دیا تھا کیونکہ انہیں یہاں کے کلچر میں بدعنوانی نظر آتی تھی۔
1755ء میں جب Lisbon میں زلزلہ آیا تو مشہور فلسفی روسو نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ زلزلہ شہریوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے آیا۔ جب کہ اس سے گاؤں اور دیہات محفوظ رہے کیونکہ وہ نیک اور پاک باز تھے۔ اس پر وولی ٹر نے روسو پر سخت تنقید کی اور اپنی ا یک نظم کے ذریعے زلزلہ زدگان پر ایک نوحہ بھی لکھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں میں شہر اور دیہات کا فرق تقریبا ختم ہو گیا ہے، لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں ابھی تک یہ فرق باقی ہے اور شہری لوگ دیہات کے لوگوں کو گنوار، غیر مہذب اور غیر تہذیب یافتہ سمجھتے ہیں۔ یہ فرق اسی وقت ختم ہو گا، جب شہر اور دیہات میں رابطے بڑھیں گے اور ان کو بھی وہ مراعات ملیں گی، جن سے شہری فیض یاب ہوتے ہیں۔
شہروں کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ وہ دارالسلطنت کی وجہ سے سیاست کا مرکز ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ شہر ہیں، جو اپنی تجارت کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ تیسرے شہر وہ ہیں، جو کسی مذہبی یادگار یا مزار کی وجہ سے عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔
کیونکہ شہری آبادی دیہات کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے سیاسی تبدیلی کے لیے جب شہر کے لوگ جلسے اور جلوس نکالتے ہیں، مظاہرے کرتے ہیں تو حکومت کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔ شہر ایک لحاظ سے اپنے ملک کی تہذیب اور کلچر کا اظہار بھی کرتے ہیں، اگر شہر میں صفائی ہو، گندگی کے ڈھیر نہ ہوں، ٹرانسپورٹ قاعدے و قانون کے مطابق منظم ہو تو اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس ملک کی تہذیب کس معیار کی ہے۔ شہری کو اپنے شہر پر اس وقت فخر ہوتا ہے، جب شہر اسے سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ دوسری صورت میں وہ شہر کی زندگی کو وہ اپنے لیے ایک مصیبت سمجھتا ہے۔ جب یہ مرحلہ آجائے تو دیہات کے غیر مہذب اور شہر کے مہذب ایک ہو جاتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔