ناروے کی شہری کو بھارت چھوڑنے کا حکم
27 دسمبر 2019بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا کے شہر کوچی میں 'فارنرز ریجنل رجسٹریشن آفس‘ (ایف آر آر او) کے ایک اعلیٰ افسر نے تصدیق کی ہے کہ ناروے کی سیاح جین میٹ جانسن کو 'ویزا ضابطوں کی خلاف ورزی‘ کرنے کی وجہ سے بھارت چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔
گذشتہ روز جمعرات کو جین میٹ جانسن کو کوچی کے 'ایف آر آر او‘ دفتر میں طلب کیا گیا اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تئیس دسمبر کو شہر میں ہوئے مظاہرے میں ان کی شرکت کے حوالے سے سوالات کیے گئے۔ ایف آر آر او کے افسر انوپ کرشنن کا کہنا تھا ''ویزا ضابطوں کی خلاف ورزی کا قصور وار پانے پر جین میٹ جانسن ملک چھوڑ کر جانے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔" انہوں نے تاہم مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
74 سالہ جین میٹ جانسن نے بعد میں اپنے فیس بک پیج پر اس کی تفصیلات شیئر کیں۔ انہوں نے لکھا ”کچھ دیر پہلے امیگریشن افسران میرے ہوٹل میں بھی آئے اور کہا کہ میں فوراً ملک چھوڑ کر چلی جاؤں ورنہ میرے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔" انہوں نے مزید لکھا ”جب میں نے اس پر وضاحت طلب کی یا تحریری طورپر کچھ دینے کے لیے کہا تو افسران نے کہا کہ تحریری طورپر کچھ بھی نہیں دیا جائے گا۔"
قبل ازیں جانسن نے اپنے فیس بک پر کوچی میں رواں ہفتے پیر کے روز ہونے والے شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاجی مظاہرے میں اپنی شرکت کی تصویریں پوسٹ کی تھیں۔ انہوں نے لکھا تھا ”آج سہ پہر میں نے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔" اس مظاہرے میں ادیبوں، فلم سازوں، اداکاروں اور ڈائریکٹروں سمیت سینکڑوں افراد نے حصہ لیا تھا۔
جین میٹ جانسن سن 2014 سے مسلسل بھارت آتی رہی ہیں اور اس مرتبہ اکتوبر میں آئی تھیں۔ ان کا یہ پانچواں دورہ تھا۔ ان کی ویزا کی مدت مارچ 2020ء تک تھی۔ وہ دبئی کے راستے سویڈن جارہی ہیں۔
انہوں نے آج جمعہ کو اپنے فیس بک پر لکھا ”خوبصورت انڈیا میں سفر کی مزید تفصیلات اب میں فیس بک پر پوسٹ نہیں کرسکوں گی۔ میرے اس سفر کے دوران جن لوگوں نے مجھے فالو کیا میں ان سب کی مشکور ہوں۔ میں آپ سب کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں بخیر ہوں۔ یہ صرف آپ کی اطلاع کے لیے ہے۔ میرے لیے پریشان نہ ہوں۔ آپ سب کا شکریہ۔ گڈ بائی میرے دوستو!"
خیال رہے کہ اس ہفتے کے اوائل میں بھارت کے معروف تعلیمی ادارے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) چنئی میں زیر تعلیم ایک جرمن طالب علم کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرنے پر ویزا ضابطوں کی خلاف ورزی کا قصوروار قرار دیتے ہوئے ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔
جرمن شہر ڈریسڈن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے طالب علم یاکوب لِنڈن تھال طلبہ کے تبادلے کے ایک دوطرفہ پروگرام کے تحت چنئی میں 'آئی آئی ٹی‘ کے شعبہ طبیعیات میں زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے چنئی میں منعقد ہ ایک مظاہرہ میں حصہ لیا تھا اور اس کی ویڈیو اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر ڈال دی تھی۔ تب انہوں نے اپنے ہاتھ میں جو پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، اس پر نازی جرمن دور کے واقعات کے حوالے سے لکھا ہوا تھا '' 1933ء سے لے کر 1945ء تک ہم یہ سب بھگت چکے ہیں۔" سرکاری حکم کے بعد انہیں اپنی ماسٹرز کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس جرمنی روانہ ہونا پڑا۔
اپوزیشن کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وفاقی وزیر پی چدمبرم نے لِنڈ ن تھال کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیے جانے کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں ان دنوں جس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں وہ اسی طرح کے ہیں جیسا کہ ایڈولف ہٹلر کے دور میں جرمنی میں پیش آئے تھے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا ”جرمن طالب علم ہمیں عالمی تاریخ کے ایک تاریک باب کی یاد دلارہا تھا تاکہ اسے بھارت میں دہرایا نہ جائے۔ یہ طالب علم ہمارے شکریے کا مستحق ہے۔آئی آئی ٹی کے ڈائریکٹر کہاں ہیں، اس کے چیئرمین کہاں ہیں۔ انہیں جواب دینا چاہیے۔"
کانگریس کے رکن پارلیمان اور امور خارجہ کے سابق نائب وزیر ششی تھرور نے بھی جرمن طالب علم کو بھارت چھوڑنے کے حکم پر مایوسی کا اظہار کر تے ہوئے کہا تھا ”یہ مایوس کن ہے۔ ہم اپنی جمہوریت پر فخر کرتے ہیں۔ اسے دنیا کے لیے ایک مثال قرار دیتے ہیں۔ لیکن کسی بھی جمہوریت میں اظہار کی آزادی کے لیے سزا نہیں دی جاتی ہے۔"
خیال رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ان دنوں پورے بھارت میں زبردست مظاہرے ہورہے ہیں۔ ان میں سے بعض پرتشدد مظاہروں میں اب تک کئی 25 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ جب کہ حکومت نے ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی بنیاد پر زیادتی کا شکار ہونے والے ہندووں، سکھوں، مسیحیوں، جینیوں اور پارسیوں کو بھارتی شہریت دینے کے لیے ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جانا بھارتی آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔