1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہزاد اقبال کا خواب، پاکستان ميں ڈيری سيکٹر کی ترقی

27 اگست 2012

پاکستان کے نارووال ضلع سے تعلق رکھنے والے شہزاد اقبال نے اپنی کارپوريٹ سيکٹر کی ملازمت اور ايک تسلی بخش لائف اسٹائل کو خير باد کہہ کر ڈيری سيکٹر ميں سرمايہ کاری کرنے کا فيصلہ کيا۔ وہ پاکستان کے ليے کچھ کرنا چاہتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/15xIJ
تصویر: AP

تقريباً 63 ملين گائیوں اور بھينسوں کے ساتھ پاکستان کا شمار ڈيری مصنوعات کے حصول کے لیے پالے جانے والے جانوروں کی سب سے زیادہ تعداد والے ممالک ميں ہوتا ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی کا بيس فيصد حصہ يا قريب پينتيس ملين لوگ اس شعبے سے منسلک ہيں۔ البتہ ان تمام حقائق کے باوجود پاکستان ڈيری پراڈکٹس برآمد نہيں کرتا اور خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس صنعت کی حالت کو اگر ’خستہ حال‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

يہی وجہ ہے کہ پاکستانی صوبہ پنجاب کے نارووال ضلع ميں شہزاد اقبال نامی ايک شخص نے اس سيکٹر ميں تبديلی لانے کے ليے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا ديا۔ قريب دس سال تک کارپوريٹ سيکٹر ميں ملازمت کرنے کے بعد انہوں نے اپنی پوری کی پوری جمع پونجی مغربی ممالک سے سانڈوں کی منی درآمد کرنے ميں صرف کر دی۔ وہ مغربی ممالک سے طاقتور بيلوں کا مادہ منويہ درآمد کرنے کے بعد اسے ملکی کسانوں کو سستے داموں بيچتے ہيں تاکہ يہ کسان اس منی کو استعمال کرتے ہوئے زيادہ دودھ دينے والی گائیں پيدا کروا سکيں۔

شہزاد اقبال کا خواب ہے کہ پاکستان کی گائے، جو کہ بچھڑے کی پيدائش کے بعد اوسطاً سولہ سو ليٹر دودھ ديتی ہے، اسرائيل کی ’ہولسٹائن‘ نامی گائے کی طرح دودھ ديتا ديکھيں جو بچھڑے کی پيدائش کے بعد اوسطاً ساڑھے بارہ ہزار ليٹر دودھ ديتی ہے۔ شہزاد اقبال نے ’جسڑ فارمز‘ نامی منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس ميں وہ بہتر نسل والی گائيں پيدا کرواتے ہيں۔

نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق اگر شہزاد اقبال اور ان کے ساتھيوں کی کاوشيں رنگ لائيں اور وہ اس سيکٹر ميں صديوں پرانے طور طريقوں کو تبديل کرواتے ہوئے نئے طريقے متعارف کروا سکے تو اس کے نتيجے ميں ڈيری پراڈکٹس کے سيکٹر سے منسلک لاکھوں کسانوں کی زندگياں بدلی جا سکيں گی۔ البتہ شہزاد اقبال اپنے سامنے کھڑی آزمائشوں سے بخوبی واقف ہيں۔ ان کا کہنا ہے، ’اس صنعت ميں تبديلی لانے کی ليے کسی انقلاب کی ضرورت ہے‘۔

نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق شہزاد کو درپيش مشکلات ميں پاکستانی فارمز اور کسانوں کا منظم انداز ميں کام نہ کرنا سرفہرست مسئلہ ہے۔ مغربی ممالک ميں مويشی پالنے والے کسان اپنے جانوروں کو ايک مخصوص علاقے ميں رکھتے ہيں۔ ان کا کھانا پينا، گھومنا پھرنا منظم انداز ميں ہوتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے ديہی علاقوں اور خاص طور پر صوبہ پنجاب ميں کسان اکثر اپنے مویشیوں کو کھلا چھوڑ ديتے ہيں۔ اکثر اوقات کسانوں کے پاس تين يا چار گائیں بھينسيں ہوتی ہيں۔ اس کے علاوہ دودھ بيچنے کے ليے کسانوں کو دودھیوں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہيں جو گھر گھر سے دودھ جمع کرتے ہیں اور پھر آگے مختلف صارفين تک پہنچاتے ہيں۔

Indien Kühe
تصویر: AP

شہزاد اقبال کے بقول انتظامی مسائل کی وجہ سے ترسيل اور مارکيٹنگ کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ روئٹرز کے مطابق پاکستان ميں دودھ کی مجموعی پيداوار کا محض تين فيصد حصہ منظم انداز سے کمپنيوں ميں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تيار کيے جانے کے بعد بڑی بڑی مارکيٹوں تک پہنچتا ہے جبکہ ترقی يافتہ ممالک ميں ڈيری پراڈکٹس کی ايک بڑی تعداد ’پراسيس‘ کی جاتی ہے۔

پاکستان کے ڈيری سيکٹر ميں اصلاحات اور ترقی کے حصول کے خواہش مند شہزاد اقبال تنہا نہيں بلکہ ملک ميں کام کرنے والی چند کمپنيوں نے بھی اس شعبے ميں سرمايہ کاری کر رکھی ہے ليکن ديہی علاقوں ميں طور طريقے بدلنا اور لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانا کسی پہاڑ پر چڑھنے سے کم نہيں۔

as/aa/Reuters