ڈیانا سے انٹرویو کے لیے بی بی سی صحافی کی 'دھوکہ دہی‘ ثابت
21 مئی 2021آزاد کمیشن نے جمعرات کے روز جاری اپنی انکوائری رپورٹ میں کہا ہے کہ بی بی سی کے صحافی مارٹن بشیر نے سن 1995میں شہزادی ڈیانا سے انٹرویو کو یقینی بنانے کے لیے 'دھوکہ دہی‘ سے کام لیا تھا۔ شہزادی ڈیانا نے اس انٹرویومیں یہ کہہ کر دھماکہ کردیا تھا کہ”اس شادی میں تین لوگ ہیں۔“
اس انٹرویو میں شہزادی ڈیانا نے پہلی مرتبہ عوامی طورپر اور واضح انداز میں اپنی نا کام شادی کا ذکر کیا تھا۔ اس انٹرویو کو دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں نے دیکھا تھا جس نے برطانوی شاہی خاندان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے" مسٹر بشیر نے نامناسب طریقہ اپنایا تھا اور کسی شخص کا انٹرویو لینے کے حوالے سے بی بی سی کی جو 1993 کی پروڈیوسرز گائیڈ لائنز ہیں ان کی سنگین خلاف ورزی کی تھی۔“
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انٹرویو کے وقت برطانوی نشریاتی ادارے نے ”اپنی 'دیانت داری اور شفافیت کے اعلیٰ میعار کو، جو اس کا طرّہ امتیاز ہے، برقرار نہیں رکھا۔"
اس انٹرویو میں جسے بی بی سی کے مشہور 'پینورما‘ پروگرام میں نشرکیا گیا تھا، شہزادی ڈیانا نے کہا تھا ”ہماری یہ شادی تین لوگوں کے درمیان ہے۔“ ان کا اشارہ پرنس چارلس اور ان کی دیرینہ مسٹریس اور اب اہلیہ کامیلا پارکر باویلس کے درمیان غیر ازدواجی تعلقات کی طرف تھا۔
مارٹن بشیر پر کیا الزامات ہیں؟
شہزادی ڈیانا کے بھائی ارل اسپینسر نے شکایت کی تھی کہ بشیر نے شہزادی کو انٹرویو دینے پر آمادہ کرنے کے لیے فرضی دستاویزات کا استعمال کیا تھا اور دیگر 'ہتھکنڈے‘ بھی اپنائے تھے۔ اس کے بعد بی بی سی نے نومبر میں کہا تھا کہ اس نے سابق سینیئر جج جون ڈائسن کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی قائم کی ہے۔
اسپینسر نے الزام لگایا تھا کہ ان کی بہن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بشیر نے انہیں ڈیانا کے سابق پرائیوٹ سکریٹری پیٹرک جیفسن اور شاہی خاندان کے ایک دیگر فرد کی فرضی بینک دستاویزات دکھا کر ان کا اعتماد حاصل کیا۔
بشیر نے مبینہ طور پر بی بی سی کے ایک گرافک ڈیزائنر کو فرضی بینک دستاویزات تیار کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ یہ تاثر دے سکیں کہ وہ شہزادی ڈیانا کے خاندان کے قریبی لوگوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
اسپینسر کا مزید کہنا تھا کہ بشیر نے انہیں یہ بھی باور کرایا تھا کہ سکیورٹی سروسز شہزادی ڈیانا کی بات چیت کو ریکارڈ کر رہی ہے۔
بشیر کے ساتھ کیا ہوا؟
بی بی سی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بشیر اپنی خرابی صحت کی وجہ سے نشریاتی ادارے میں مذہبی امور کے ایڈیٹر کی اپنی موجودہ ملازمت چھوڑ رہے ہیں۔ کووڈ انیس کی وجہ سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور صحت کو کئی طرح کی پیچید گیاں لاحق ہو گئی ہیں۔
یہ اعلان بی بی سی مینجمنٹ کو ڈائسن کی رپورٹ پیش کیے جانے سے محض چند گھنٹے قبل کیا گیا تھا۔
اپنے ایک بیان میں 58 سالہ بشیر نے جعلی دستاویزات بنانے پر معذرت کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ''بینک کی دستاویزات کا شہزادی ڈیانا کے انٹرویو دینے کے ذاتی فیصلے پر کسی بھی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔" ا ور وہ یہ انٹرویو کرنے پر ’بے انتہائی فخر‘ محسوس کرتے ہیں۔
بی بی سی نے اس سے قبل اپنی ایک انکوائری میں کہا تھا کہ مارٹن بشیر نے کوئی بھی غلط طریقہ کار استعمال نہیں کیا تھا لیکن جسٹس ڈائسن نے اس داخلی انکوائری کو'افسوس ناک حد تک ناقص اور غیر موثر‘ قرار دیا۔
بشیر جو شہزادی ڈیانا کا انٹرویو لینے سے قبل بہت زیادہ معروف نہیں تھے، انٹرویو کے بعد کافی شہرت یافتہ ہو گئے اور انہوں نے مائیکل جیکسن جیسے عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے انٹرویو کیے۔
بی بی سی اور شاہی خاندان کا ردعمل
شہزادی ڈیانا کے بھائی ارل اسپینسر کا کہنا ہے کہ انٹرویو جن حالا ت میں کیا گیا اس کی ابتدائی انکوائری کے حوالے سے ان سے کبھی کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا گیا۔
اسپینسر کا کہنا تھا”بی بی سی نے خود ثابت کر دیا ہے کہ اس معاملے میں تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے لیے اس کے اندر دیانت داری کی صلاحیت نہیں ہے۔"
شہزادہ ولیم نے گزشتہ برس کہا تھا کہ ا س انکوائری سے ''اصل حقائق کو سامنے لانے میں مدد ملے گی۔"
بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی نے ایک بیان میں کہا ”اگرچہ بی بی سی ایک چوتھائی صدی کا وقت واپس لا نہیں سکتا ہے، لیکن ہم مکمل اور غیر مشروط معافی مانگ سکتے ہیں۔ بی بی سی آج یہ معافی کی پیش کش کر رہا ہے۔"
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)