شینگن زون: نقل و حرکت کی آزادی کا معاہدہ خطرے میں
13 نومبر 2019یورپ کے چھبیس ممالک پر مشتمل شینگن زون میں سرحدوں کے بغیر نقل و حرکت کی آزادی ان ممالک کے اقتصادی ترقی اور باہمی رواداری کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ ان چھبیس ممالک میں بائیس ملک یورپی یونین کا حصہ ہیں اور یونین سے باہر چار ملک، یعنی سوئٹزرلینڈ، آئس لینڈ، لشٹن اشٹائن اور ناروے بھی شینگن علاقے میں شامل ہیں۔ اتنے ممالک میں بارڈر کنٹرول کے بغیر سفر دنیا کے کسی دوسرے خطے میں ممکن نہیں۔ لیکن گزشتہ برسوں سے شینگن معاہدہ خطرے کی زد میں دکھائی دے رہا ہے۔
مخصوص مواقع پر بارڈر کنٹرول
شینگن علاقے میں عارضی طور پر بارڈر کنٹرول متعارف کرانے کے لیے واضح ضوابط موجود ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک ایسا مخصوص مواقع پر اور بہت ہی مختصر مدت کے لیے کیا جا رہا تھا۔ سن 2010 میں نیٹو سمٹ کے موقع پر پرتگال نے اور 2009ء میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی خاطر ڈنمارک نے چند دنوں کے لیے عارضی سرحدی نگرانی شروع کی تھی۔
لیکن سن 2015 میں پناہ کے متلاشی افراد کی بڑی تعداد میں آمد کا حوالہ دے کر جرمنی، آسٹریا، سلووینیا اور ہنگری نے فوری طور پر بارڈر کنٹرول متعارف کرا دیا تھا۔ برسلز میں یورپی پالیسی سینٹر سے وابستہ مہاجرت کے امور کے ماہر ایوا پاسکاؤ ان ممالک کے اقدام کو 'غیر معمولی‘ قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاسکاؤ کا کہنا تھا، ''ستمبر سن 2015 سے کچھ ممالک نے شینگن ضوابط میں موجود ہر ممکن قانونی امکان کو استعمال میں لاتے ہوئے سرحدوں کی نگرانی شروع کر رکھی ہے جو ایک غیر معمولی عمل ہے۔‘‘
نیچے دیے گئے گراف میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس ملک نے کس وقت اور کتنی دیر کے لیے سرحدی نگرانی متعارف کرائی۔ عمودی لائن ستمبر سن 2015 کی نشاندہی کر رہی ہے۔
اس کے فوری بعد شینگن معاہدے میں شامل چھ ممالک نے طویل وقت کے لیے بارڈر کنٹرول شروع کر دیا۔ آسٹریا، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن اور ڈنمارک نے مہاجرین کی آمد کو سرحدی نگرانی کا جواز بنایا۔
چھٹا ملک فرانس ہے جس نے نومبر سن 2015 کے پیرس حملوں کے بعد دہشت گردی کو جواز بنا کر بارڈر کنٹرول شروع کیا تھا۔ اب چار برس بعد بھی ان چھ ملکوں نے سرحدی نگرانی بدستور جاری رکھی ہوئی ہے۔
آج تیر نومبر کے روز یہ ممالک مزید چھ ماہ کے لیے بارڈر کنٹرول برقرار رکھنے کی درخواست بھی دے چکے ہیں۔
پاسکاؤ کے مطابق، ''سن 2015 سے لے کر سن 2017 تک بارڈر کنٹرول کی قانونی وجہ بنتی تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘
سرحدی نگرانی کا قانون
شینگن بارڈرس کوڈ کے آرٹیکل 29 میں سرحدی نگرانی کی اجازت کے معاملے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس شق کے تحت چھ ماہ سے زیادہ مدت کی اجازت اس صورت میں دی جا سکتی ہے جب ''اندرونی سرحدوں پر کنٹرول کے بغیر شینگن زون کا مجموعی مقصد متاثر ہو رہا ہو اور بیرونی سرحدوں پر ناقص کنٹرول سے مسلسل اور سنجیدہ خطرہ موجود ہو۔‘‘
شینگن علاقے کے اندر سرحدی نگرانی آخری حربے کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر علاقے کی بیرونی سرحدیں محفوظ نہ ہوں تو رکن ممالک آرٹیکل 29 کے تحت زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی مدت کے لیے بارڈر کنٹرول نافذ کر سکتے ہیں اور اس میں تین مرتبہ ششماہی مدت کے لیے توسیع کی جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی ملک زیادہ سے زیادہ دو سال تک اپنی سرحدوں کی نگرانی برقرار رکھ سکتا ہے۔ تاہم مذکورہ بالا چھ ممالک نے دو کے بجائے چار سال سے مسلسل سرحدی نگرانی شروع کر رکھی ہے۔
سرحدی نگرانی کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ یہ ممالک اپنی حدود میں آنے والے ہر شخص کو روک کر چیکنگ کر سکتے ہیں۔ جرمنی میں مثال کے طور پر صرف آسٹریا سے متصل سرحد پر چند مرکزی راستوں پر نگرانی شروع کر رکھی ہے۔ سویڈن کی حکومت نے سن 2017 کے بعد ڈنمارک کی سرحد پر مکمل نگرانی ختم کر کے چند مخصوص مقامات پر بارڈر کنٹرول شروع کیا تھا۔
یورپی یونین کی تجویز پر نگرانی ممکن
رکن ممالک اپنے طور پر سرحدی نگرانی شروع نہیں کر سکتے بلکہ آرٹیکل 29 کے مطابق انہیں یورپی اداروں کی جانب سے تجویز درکار ہوتی ہے اس کے بعد ہی یورپی کونسل درخواست کا جائزہ لے کر متعلقہ ملک کو اجازت دیتی ہے۔ مئی 2016 میں یورپی کونسل کی تائید حاصل کرنے کے بعد ہی جرمنی اور دیگر پانچ ممالک نے بارڈر کنٹرول شروع کیا تھا۔
اس وقت ان چھ ممالک کو سرحدی نگرانی شروع کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی تھی کیوں کہ کونسل کے مطابق یونان میں یورپی یونین کی بیرونی سرحد میں سکیورٹی ناقص تھی۔ یونان کو سکیورٹی صورت حال بہتر بنانے کے لیے چند تجاویز دی گئی تھیں اور اس دوران نومبر سن 2017 تک دیگر ممالک کو اندرونی سرحدی نگرانی جاری رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
یورپی یونین کی اجازت کے بغیر بھی بارڈر کنٹرول جاری
قانونی طور پر دو سال کی زیادہ سے زیادہ مدت کی اجازت لینے کے بعد جب مدت ختم ہو گئی تو'یورپ میں سکیورٹی کی صورت حال اور غیر قانونی نقل و حرکت‘ کو جواز بنا کر ان ممالک نے اپنے تئیں ہی سرحدی نگرانی شروع کر دی۔ فرانس کو یورپی کونسل کی جانب سے بارڈر کنٹرول کی تائید دی ہی نہیں گئی تھی اس کے باوجود 'دہشت گردانہ حملوں کے مستقل خطرے‘ کو جواز بنا کر پیرس حکومت نے بارڈر کنٹرول مسلسل جاری رکھا۔
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاسکاؤ کا کہنا تھا، ''اب ہمیں قانونی نہیں بلکہ سیاسی صورت حال کا سامنا ہے۔ یا تو اب موجودہ صورت حال میں قانون کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا یا پھر قانون میں ترمیم کی جائے گی۔‘‘
'غیر معمولی صورت حال‘
یورپی کمیشن سے بارڈر کنٹرول نافذ کرنے کے بارے میں قانونی حوالے سے پوچھا گیا تو کمیشن نے شینگن قوانین کے آرٹیکل 25 اور 26 کا حوالہ دیا لیکن مزید کوئی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ ان شقوں میں بارڈر کنٹرول کے بنیادی طریقوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو 30 ایام سے لے کر چھ ماہ پر محیط ہو سکتا ہے۔ تاہم صرف 'غیر معمولی صورت حال‘ کے تحت آرٹیکل 29 کو استعمال میں لاتے ہوئے سرحدی نگرانی کی جا سکتی ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا کہ اس شق میں بھی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہی ہو سکتی ہے۔
'ایک سیاسی فیصلہ‘
13 ستمبر سن 2015 کے روز جرمنی سرحدی نگرانی میں توسیع کرنے والا پہلا یورپی ملک بن گیا تھا۔ سن 2006 سے اب تک جرمنی نے اپنی حدود میں داخل ہونے والے افراد کی سب سے زیادہ نگرانی کی۔
جرمن وزارت داخلہ کے ایک متعلقہ نمائندے نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکام نے شینگن قوانین کا جائزہ لینے کے بعد ہی توسیع کی تھی۔ ان کا کہنا تھا،''ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہر ششماہی توسیع کے بعد (دو سال کی زیادہ سے زیادہ مدت) صفر سے شروع ہو جاتی ہے۔‘‘
تاہم یورپی یونین کی رکن پارلیمان تانیا فایون جرمن حکام کی اس تشریح سے متفق نہیں ہیں۔ بارڈر کنٹرول کے معاملے پر یورپی پارلیمان کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے فایون کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے قوانین میں کوئی ابہام نہیں اور جرمن حکومت کا فیصلہ 'قانونی نہیں بلکہ سیاسی ہے‘۔
ایک نظریاتی معاملہ
مئی سن 2018 میں یورپی پارلیمان نے چھ ممالک کی جانب سے انفرادی طور پر سرحدی نگرانی کیے جانے کے عمل پر شدید نتقید کی تھی۔ سلووینیا کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی تانیا فایون کے نزدیک یہ ایک نظریاتی مسئلہ بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ماضی میں بارڈر کنٹرول کے نفاذ میں توسیع مخصوص اقدامات سے مشروط ہوتی تھی۔ اب ہم سرحد پار کرنے والے ہر شخص پر نظر رکھنے کے قابل ہیں اور اس کے باوجود بارڈر کنٹرول برقرار رکھا گیا ہے۔‘‘
یورپی پارلیمان کے ارکان کا تاثر یہ ہے کہ قوانین کا خیال نہ رکھنے کے باوجود یورپی کمیشن فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کو عدالت میں نہیں لانا چاہتی۔ پاسکاؤ کے خیال میں بھی ''سیاسی طور پر کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یورپی کمیشن جرمنی جیسے رکن ملک کے خلاف کوئی ایکشن لے گا۔‘‘
جرمنی اپنی پالیسی پر قائم
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق اس وقت بارڈر کنٹرول 'ملکی مائیگریشن اور سکیورٹی پالیسی کا حصہ‘ ہے۔ اس برس جون میں بائیں بازو کی جماعت کے ایک رکن کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی پارلیمان میں بتایا گیا تھا کہ غیر قانونی مہاجرت اب بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
لیکن دوسری جانب اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو جرمنی کا رخ کرنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی موجودہ تعداد سن 2014 کے درجے پر واپس پہنچ چکی ہے اور ان کی تعداد میں مسلسل کمی بھی واقع ہو رہی ہے۔
بیرونی سرحدوں پر سخت نگرانی
سن 2016 میں یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کا نگران ادارہ 'فرنٹیکس‘ بنا دیا گیا تھا اور سرحدوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی گئی تھی۔ یورپی یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کو روکنے کے لیے ایک معاہدہ بھی طے پا گیا تھا۔
ان اقدامات کے بعد پناہ گزینوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ بحیرہ روم کے مشرقی راستوں کے ذریعے سن 2015 کے دوران آٹھ لاکھ افراد یورپ پہنچے تھے اور گزشتہ برس ان کی تعداد محض 56 ہزار رہ گئی تھی۔
اب بھی شینگن زون میں سرحدوں کی نگرانی کی کیا ضرورت ہے، یہ ایک سیاسی بحث ہے۔ لیکن شینگن قوانین کی خلاف ورزی کا معاملہ برقرار ہے اور ان کا جائزہ لینے کی ضرورت بھی۔ یورپی کمیشن نے ایک تجویز دی ہے کہ نگرانی کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سے بڑھا کر تین برس کر دی جائے لیکن یورپی پارلیمان کی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ اسے کم کر کے ایک برس کر دیا جائے۔
بہرحال اس وقت تک کی صورت حال میں یہی دکھائی دے رہا ہے کہ اس مسئلے کا فوری طور پر کوئی حل بمشکل ہی نکل پائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں منفرد سمجھے جانے والے شینگن زون کا مستقبل بھی داؤ پر ہے۔
کیرا شاخٹ (ش ح / ع ا)