1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’صاف ہوا سالانہ دو ملین جانیں بچا سکتی ہے‘

عاطف بلوچ17 جون 2015

ہوا میں موجود آلودگی ختم کرنے کے نتیجے میں دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر دو ملین انسانی جانوں کا ضیاع روکا جا سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ خطوں میں بھی فضائی آلودگی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/1FihS
تصویر: picture alliance/dpa

معروف سائنسی جرنل ’ماحولیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین علاقوں کے علاوہ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں بھی فضائی آلودگی کو ختم کرنے سے اس آلودگی کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں کمی ممکن ہے۔ اس رپورٹ کے معاون مصنف جولین مارشل نے بدھ 17 جون کو بتایا، ’’ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ ہوا کو آلودگی سے پاک کرنے کی ضرورت صرف آلودہ ترین ممالک میں ہی نہیں بلکہ اس کی ضرورت ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہے۔‘‘

یونیورسٹی آف مینیسوٹا سے وابستہ مارشل نے مزید کہا، ’’یہ تو ہمیں معلوم ہی تھا کہ فضائی آلودگی والے خطوں میں ہوا کو صاف بنانے کی ضرورت ہے لیکن تحقیق کے نتائج سے واضح ہوا ہے کہ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں بھی فضائی آلودگی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

جولین مارشل کی ٹیم کی طرف سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے بری طرح متاثرہ ممالک مثال کے طور پر روس، چین اور بھارت میں اگر ہوا کو اقوام متحدہ کے معیارات کے مطابق صاف کر لیا جائے تو ان ممالک میں سالانہ بنیادوں پر 1.4 ملین انسانوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق ایسے خطے جہاں ہوا میں آلودگی زیادہ نہیں ہے، اگر وہاں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے اہداف کو یقینی بنایا جائے تو وہاں سالانہ بنیادوں پر آلودگی کے باعث نصف ملین قبل از وقت ہلاکتوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔

آلودہ ہوا میں موجود انتہائی باریک ذرات عمل تنفس کے دوران پھیپھڑوں کے بہت زیادہ اندر چلے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہی باریک ذرات سالانہ ایسی 3.2 ملین اموات کا باعث بن جاتے ہیں، جنہیں احتیاطی تدابیر کے باعث روکا جا سکتا ہے۔

Joshua Apte führt Luftmessungen in Neu Delhi durch 25.11.2014
یونیوسٹی آف ٹیکساس سے منسلک جوشوآ آپٹے نئی دہلی میں اپنی تحقیق کے دورانتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri

اس رپورٹ کو تیار کرنے والی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ جوشوآ آپٹے اور ان کے ساتھیوں نے اپنی توجہ ہوا میں موجود ایسے باریک ذرات پر مرکوز کی، جو 2.5 مائکرون سے بھی باریک اور چھوٹے تھے۔ ہوا میں موجود اس قسم کے ذرات دل کی بیماریوں، اسٹروکس، پھیپھڑوں کی پیچیدگیوں اور کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

اس طرح کے خطرناک ذرات کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس، کاروں سے خارج ہونی والی گیسوں اور صنعتی سبزمکانی گیسوں سے پیدا ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں کھانا پکانے اور موسم سرما میں گھروں کو گرم کرنے کی خاطر کوئلے اور لکڑیوں کو جلانے کے عمل سے بھی یہ خطرناک ذرات ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں۔

یونیوسٹی آف ٹیکساس سے منسلک جوشوآ آپٹے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اس تحقیق کا مقصد تھا کہ تعین کیا جا سکے کہ ہوا کو کس قدر صاف کیا جائے کہ اس کی نتیجے میں ہونے والی اموات پر قابو پانا ممکن ہو جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ جو ماڈل ہم نے تخلیق کیا ہے، اس کی مدد سے صحت عامہ کے شعبے میں بہتری کے لیے ایک کامیاب حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے۔‘‘