صالح فارغ، ہادی یمن کے نئے صدر بن گئے
25 فروری 2012یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کا اقتدار سال بھر سے جاری حکومت مخالف احتجاج کے نتیجے میں ختم ہوا ہے، جس نے اس عرب ریاست کو مفلوج بنا رکھا تھا۔
عبدربہ منصور ہادی اس عہدے کے لیے سامنے آنے والے واحد امیدوار تھے۔ اس مقصد کے لیے رواں ہفتے ووٹنگ ہوئی، جس میں 60 فیصد رجسٹرڈ ووٹروں نے حصہ لیا۔
اس پیش رفت سے علی عبداللہ صالح گزشتہ تقریباﹰ ایک برس کے دوران عوامی احتجاج کے نتیجے میں اقتدار کھونے والے چوتھے عرب رہنما بن گئے ہیں۔
حلف برداری کی تقریب کے بعد ہادی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یمن حکومت کو درپیش مسائل پر قابو پانا ہو گا، جن میں ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بحران کے باعث بے گھر لوگوں کی ان کے گھروں کو واپسی شامل ہے۔
انہوں نے کہا: ’’ہم درپیش چیلنجز کا عملی طور پر سامنا نہیں کرتے تو حالات ابتر رہیں گے۔‘‘
ہادی نے امریکی حمایت سے طے پانے والے اقتدار کی منتقلی کے معاہدے کے نتیجے میں صدارت کا منصب سنبھالا ہے۔ اقتدار کی منتقلی کا یہ معاہدہ یمن کے سعودی عرب جیسے امیر ہمسایہ ملکوں کی ثالثی کے نتیجے میں طے پایا، جسے امریکہ کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت بھی حاصل تھی۔
علی عبداللہ صالح نے یمن پر 33 برس حکومت کی۔ ان کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج کے تناظر میں ایسے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ یمن میں دہشت گرد گروہ القاعدہ کی شاخ مضبوط ہو سکتی ہے۔
صالح گزشتہ برس قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے تھے۔ یہ حملہ گزشتہ برس جون میں صنعاء میں صدارتی محل کی مسجد پر ہوا تھا، جس میں گیارہ افراد ہلاک اور صالح سمیت متعدد زخمی ہوئے تھے۔ علی عبداللہ صالح پہلے سعودی عرب میں زیر علاج رہے اور بعد میں علاج کے لیے امریکہ گئے، جہاں سے وہ جمعے کو یمن لوٹے تھے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: افسر اعوان