صالح کی 33 برس بعد اقتدار سے باقاعدہ علیحدگی
28 فروری 2012اس موقع پر علی عبداللہ صالح نے ملک کی ’تعمیر نو‘ کے لیے نئے صدر کی کوششوں میں معاونت کا وعدہ بھی کیا۔ انہوں نے کہا: ’’میں انقلاب، جمہوریہ، آزادی، سلامتی اور استحکام کی ذمہ داری محفوظ ہاتھوں میں دے رہا ہوں۔‘‘
ان کا یہ آخری خطاب ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کیا گیا۔ مرکزی اپوزیشن اتحاد کامن فورم نے پیر کی اس تقریب کا بائیکاٹ کیا تھا۔ عبوری حکومت اس وقت اسی اتحاد کے پاس ہے۔
کامن فورم نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ہادی اکیس فروری کے انتخابات میں جیت کے بعد باقاعدہ طور پر صدر بن گئے تھے اور وہ صالح کی جانب سے اقتدار سونپے جانے کی وجہ سے صدارت کے منصب پر نہیں پہنچے ہیں۔
عبد ربہ منصور ہادی گزشتہ ہفتے ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے سامنے آنے والے واحد امیدوار تھے۔ انہوں نے ہفتے کو اس منصب کا حلف اٹھا لیا تھا۔ حلف برداری کی تقریب سے خطاب میں ہادی کا کہنا تھا کہ یمن حکومت کو درپیش مسائل پر قابو پانا ہو گا، جن میں ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بحران کے باعث بے گھر لوگوں کی ان کے گھروں کو واپسی شامل ہے۔
ہادی نے امریکی حمایت سے طے پانے والے اقتدار کی منتقلی کے معاہدے کے نتیجے میں صدارت کا منصب سنبھالا ہے۔ یہ معاہدہ یمن کے سعودی عرب جیسے امیر ہمسایہ ملکوں کی ثالثی کے نتیجے میں طے پایا، جسے امریکہ کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت بھی حاصل تھی۔
خیال رہے کہ علی عبداللہ صالح کا اقتدار سال بھر سے جاری حکومت مخالف احتجاج کے نتیجے میں ختم ہوا ہے، جس نے اس عرب ریاست کو مفلوج بنا رکھا تھا۔ انہوں نے یمن پر 33 برس حکومت کی۔ وہ گزشتہ قریب ایک برس کے دوران عوامی احتجاج کے نتیجے میں اقتدار کھونے والے چوتھے عرب رہنما بن گئے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: حماد کیانی