صحافیوں کی ہلاکتیں، پاکستان پہلے نمبر پر
14 اکتوبر 2011رپورٹ کے مطابق اس برس پاکستان کے بعد عراق صحافیوں کے لیے دوسری بڑی مقتل گاہ ثابت ہوا ہے۔ جرمنی اور فرانس میں قائم اس تنظیم کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں 99 صحافی قتل ہوئے تھے جن میں سے 10 کا تعلق پاکستان سے تھا اور پاکستان میں صحافیوں کے خلاف بدترین تشدد کا سلسلہ اس وقت بھی پورے زور و شور سے جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس برس اب تک قتل ہونے والے صحافیوں میں سلیم شہزاد ، ولی خان بابر، الیاس نزار، عبدالستار رند، نصراللہ آفریدی، اسفند یار عابد، سیف اللہ خان اور منیر شاکر شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے لیے انصاف اور ان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کا رجحان اور بھی تشویش ناک ہے۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے سابق صدر اور اخبار نوائے وقت سے منسلک سینئر صحافی نواز رضا نے کہا، ’’بڑی بے حسی کی بات ہے کہ صحافیوں کے قتل پر وقتی طور پر تو شور شرابہ ہوتا ہے، بعد میں لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں صحافتی برادری ایک دباؤ کی کیفیت میں ہے، ایک دباؤ حکومت کی طرف سے، ایک سیاسی جماعتوں کا دباؤ ہے اور ایک عسکریت پسندوں کا بھی دباؤ ہے اور ان لوگوں کا بھی دباؤ ہے، جن کے پاس اسلحہ اور وسائل ہیں۔ ان کے خلاف کوئی خبر چھپ جائے تو وہ صحافیوں کو ہدف بناتے ہیں۔ پاکستان میں آزادی کے ساتھ لکھنا بڑا مشکل کام ہے، خاص کر تب، جب آپ سچ لکھنا چاہیں۔‘‘
اس سال مئی میں ایشیاء ٹائمز آن لائن کے بیورو چیف سلیم شہزاد کے نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغواء اور قتل کے بعد امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت مختلف ممالک نے ان کے قتل کی تحقیقات کے لیے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا لیکن اس سلسلے میں قائم کیا گیا کمیشن اپنا کام مکمل کرنے کے لیے چھ ہفتے کی طے کی گئی مدت میں توسیع لینے کے باوجود اب تک قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کر سکا۔
نیشنل پریس کلب کے صدر افضل بٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طاقت کو دلیل بنا لیا گیا ہے۔ صحافت آئینے کا کام کرتی ہے، جو بھی سامنے آئے اگر اس کے چہرے پر داغ دھبے ہیں تو وہ ان کو صاف کر لے لیکن یہاں لوگ آئینہ توڑتے ہیں، چہرہ صاف نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے ۔ انہوں نے کہا، ’’اگر کسی صحافی کو اس کے کام سے روکا جائے تو اس کے لیے تعزیرات پاکستان کے تحت ایسی کوئی بھی دفعہ نہیں ہے کہ مقدمہ درج کیا جا سکے۔ ہم اکثر یہ مطالبہ کرتے چلے آئے ہیں کہ اگر کسی سرکاری ملازم کو اس کے کام سے روکا جائے تو کار سرکار میں مداخلت کی دفعات کے تحت سخت قسم کا پرچہ درج ہوتا ہے۔ کم از کم ہمیں اتنا تو حق دے دیں کہ اگر کسی کیمرہ مین یا فوٹو گرافر کو اس کی فرائض کی بجا آوری سے روکا جائے تو اس کے خلاف پرچہ درج ہو سکے۔‘‘
افضل بٹ کے مطابق، ’’یہاں تو یہ ہے کہ جب تک آدمی مر نہ جائے ، اغواء یا زخمی نہ ہو، پرچہ بھی نہیں کرایا جا سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور حکومت کو مل کر سوچنا چاہیے کہ اگر سچ کا یہ دروازہ بند ہو گیا تو معاشرے کا کیا بنے گا۔‘‘
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: امتیاز احمد