صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ کرنے والا بھارتی صحافی بھی گرفتار
23 مارچ 2016نئی دہلی سے بدھ تئیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق بھارت کی مشرقی ریاست چھتیس گڑھ کو بالعموم اور اس کے بستار نامی خطے کو خاص طور پر کئی عشروں سے بائیں بازو کے ماؤ نواز باغیوں کی مسلح تحریک کا سامنا ہے۔
اس علاقے کی صورت حال پر قلم اٹھانے والے ایک بھارتی رپورٹر پربھت سنگھ نے سوشل میڈیا پر اپنے تبصروں میں پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ پربھت سنگھ نے مطالبہ کیا تھا کہ کوئی ایسا قانون بھی عملاﹰ نافذ کیا جانا چاہیے، جو مسلح بغاوت اور خونریزی کے شکار اس خطے میں نامہ نگاروں کے تحفظ کو یقینی بنا سکے۔
پربھت سنگھ کے اس حالیہ مطالبے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بھائی وشنو سنگھ نے آج بدھ کے روز ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ پربھت کو پولیس پیر اکیس مارچ کو رات گئے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
وشنو سنگھ نے کہا، ’’پربھت سنگھ چھتیس گڑھ کے بدامنی اور مسلح بغاوت سے متاثرہ علاقے بستار سے رپورٹنگ کرتا ہے۔ پیر اکیس مارچ کو رات گئے پولیس اہلکار اسے اپنے ساتھ لے گئے اور منگل بائیس مارچ کو اسے ایک ملزم کے طور پر باقاعدہ ایک عدالت میں پیش بھی کر دیا گیا۔‘‘
پربھت کے بھائی وشنو کے مطابق سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ پربھت پر جو فرد جرم عائد کی گئی ہے، اس کے مطابق وہ ’فحش مواد کی تشہیر‘ کا مرتکب ہوا تھا۔
بھارت کا جنوب مشرقی حصہ وہاں جاری کئی مختلف مسلح تحریکوں کی وجہ سے صحافیوں کے لیے ’کام کرنے کی بہت مشکل جگہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہاں سکیورٹی فورسز پر کسی بھی طرح کی تنقید کو اکثر باغیوں کے لیے حمایت سمجھا جاتا ہے۔
ریاست چھتیس گڑھ میں گزشتہ برس بھی دو مقامی صحافیوں کو گرفتار کر کیا گیا تھا اور وہ ابھی تک عدالتوں میں ان الزامات کے خلاف اپنا دفاع کر رہے ہیں کہ انہوں نے بائیں بازو کے ماؤ پرست باغیوں کی حمایت کی تھی۔