صدر بنا تو سکیورٹی معاہدے پر دستخط کر دوں گا، اشرف غنی
31 مئی 2014اشرف غنی نے جمعے کو افغانستان کے مغربی شہر ہرات سے اسکائپ کے ذریعے واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک کے ایک اجتماع سے خطاب میں کہا: ’’میں اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر باہمی سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے سنجیدہ ہوں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری قومی سکیورٹی فورسز کو ہماری عالمی شراکت کے حوالے سے یقین دہانی درکار ہے، انہیں افرادی اور مادی وسائل کی بھی ضرورت ہے اور یہ سب اس باہمی سکیورٹی معاہدے کے نتیجے میں ہی حاصل ہو گا۔‘‘
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک حالیہ بیان میں افغانستان میں تعینات اپنی افواج کی تعداد رواں برس کے آخر تک 32 ہزار سے نو ہزار دو سو کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ آئندہ برس کے آخر تک تمام فوجی واپس بلانے کا عزم بھی ظاہر کیا۔
امریکا کی قیادت میں افغانستان میں نیٹو کے اکاون ہزار فوجی تعینات ہیں جن کا انخلاء رواں برس دسمبر تک طے ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک طویل اور مہنگی جنگ اپنے انجام کو پہنچ جائے گی جس کا مقصد ان عسکریت پسندوں کو شکست دینا تھا جنہوں نے اقتدار سے اپنی بے دخلی کے بعد شدت پسندانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔
غیرملکی فورسز کے انخلاء کے بعد امریکی فوجیوں کی محدود تعداد افغانستان میں قیام کر سکتی ہے جن کا کام مقامی فورسز کی تربیت اور انسدادِ دہشت گردی کے مشن کو چلانا ہو گا۔ تاہم آئندہ برس فوجیوں کی اس محدود تعیناتی کا انحصار افغانستان اور امریکا کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر ہے جس پر افغانستان کی جانب سے ابھی تک دستخط نہیں کیے گئے۔
اشرف غنی ورلڈ بینک کے سابق ماہر اقتصادیات ہیں۔ جمعے کو اپنے اس خطاب میں انہوں نے اس پہلو پر بھی بات کی کہ وہ اپنے ملک کو کس طرح معاشی خوش حالی کی راہ پر ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس حوالے سے بنیادی اصلاحات متعارف کروائیں گے۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے ووٹنگ چودہ جون کو ہو گی۔ اس مرحلے میں اشرف غنی کو سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کا سامنا ہے۔
پانچ اپریل کو انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار مقررہ اکثریت حاصل نہیں کر پایا تھا۔ عبداللہ عبداللہ کو 45 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ اشرف غنی نے 31.6 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔