صدر زرداری کی وطن واپسی ابہام کا شکار
15 دسمبر 2011
صدر زرداری کے 6 دسمبر کو دبئی کے امریکن ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد سے ان کی بیماری کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ شروع میں تو حکومت کی جانب سے صدر کی بیماری کو راز میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن بعد ازاں افواہوں کا بازار گرم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں نے صدرکی عارضی علالت کے بعد صحت یابی کی اطلاعات دینا شروع کر دیں۔ جب ابہام مزید بڑھ گیا تو بالآخر بدھ کی شب ایوان صدر سے یہ بیان سامنے آیا کہ صدر دبئی میں ہسپتال سے اپنے گھر منتقل ہو چکے ہیں۔ صدارتی ترجمان کے مطابق صدر ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق گھر پر آرام کریں گے اور عارضہ قلب کی ادویات استعمال کریں گے۔
اسی دوران قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اورمسلم لیگ ن کے رہنما چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حکومتی وزراء نے ہر معاملے میں جھوٹ بولنے کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور صدر کی بیماری سے متعلق کئی دن گزرنے کے باوجود بھی سچ نہیں بولا جا رہا۔ انہوں نے کہا:’’حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صدرکی بیماری یا مرض کوچھپانے کے بجائے اصل صورتحال قوم کے سامنے پیش کریں، جیسا کہ ہر مہذب ملک میں ہوتا ہے ۔‘‘
چوہدری نثار نے کہا، حیران کن بات یہ بھی ہے کہ پچھلے سات دنوں میں ہر روز زرداری صاحب کی صحت کے بارے میں مختلف بیانات سامنے آ رہے ہیں:’’ایک وزیر کچھ کہتا ہے تو دوسرا وزیر کچھ اور کہتا ہے۔ ایوان وزیراعظم سے کچھ اور جبکہ ایوان صدر سے کچھ اور بتایا جاتا ہے اور پھر جب بھی حکومتی وزراء بات کرتے ہیں، وہ میڈیا اور اپوزیشن پر برستے ہیں کہ انہوں نے صدر کی بیماری کو ایشو بنا رکھا ہے لیکن اصل میں حکومت نے اس بات کو ایشو بنایا ہے۔‘‘
ادھر وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اس بیان کی تائید کی ہے کہ صدر کی جان کولاحق خطرے کے پیش نظر انہیں بیرون ملک علاج کرانا پڑا۔ جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رحمان ملک نے کہا کہ صدر زرداری اپنے والد حاکم زرداری کی وفات سے قبل ان کی تیمار داری کے لئے پمز ہسپتال اس لئے نہ جا سکے کہ وہاں دہشت گرد گھات لگائے بیٹھے تھے، جنہیں بعد میں اسلام آباد پولیس نے گرفتار بھی کیا۔
صدر زرداری کی بیماری کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیوں پر رحمان ملک نے کہا:’’ضروری نہیں کہ کوئی ملک کا صدر یا وزیر اعظم بن جائے تو وہ بیمار نہیں ہو سکتا لیکن اس کو ایک تنازعہ بنا کر قوم کے سامنے سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے تھوڑی سی دل کو تکلیف ہوئی کہ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ صدر بیمار ہوئے لیکن میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ اگر وہ بیمار ہیں تو میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا فراخدلی سے کہا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری سیاست میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا عمل بہت زیادہ ہونا چاہئے۔‘‘
صدر زرداری کے دبئی سے وطن واپس لوٹنے کے بارے میں بھی کسی قسم کا ٹائم فریم نہیں دیا گیا تاہم صدر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ وہ 27 دسمبر کو اپنی اہلیہ اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی برسی سے قبل واپس لوٹ آئیں۔
خیال رہے کہ صدر آصف زرداری کو میمو گیٹ سکینڈل کے علاوہ این آر او کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے بارے میں سپریم کورٹ میں اپنا الگ الگ جواب داخل کرانا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر انہی مقدمات کے دباﺅ کی وجہ سے بیمار ہوئے اور اب بیرون ملک ٹھہرے ہوئے ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی