صرف چھ ماہ میں قحط کے باعث دو کروڑ انسانوں کی ہلاکت کا خطرہ
16 فروری 2017سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے جمعرات سولہ فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام کے اعلیٰ ترین ماہر اقتصادیات عارف حسین نے کہا ہے کہ یمن، شمال مشرقی نائیجیریا اور جنوبی سوڈان میں جنگوں کے نتیجے میں نہ صرف اشیائے خوراک کی قیمتیں بہت زیادہ ہو چکی ہیں بلکہ اس صورت حال نے ہزارہا گھرانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
یمن : بھوک کے ڈیرے، جنگ سے برسوں کی محنت برباد، انٹرویو
یمن کے کئی علاقوں میں خوراک کی قلّت، قحط کا خطرہ پیدا ہو گیا
عارف حسین نے روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ براعظم افریقہ کے مشرقی حصے میں خشک سالی مجموعی طور پر اس خطے میں زراعت کو تباہ کن حد تک شدید نقصانات سے دوچار کر چکی ہے۔
عارف حسین کے مطابق، ’’عالمی خوراک پروگرام سے بطور ایک ماہر اقتصادیات اپنے تعلق کے پچھلے قریب پندرہ برسوں میں کم از کم میں نے ایسا پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا کے چار مختلف خطوں کو بیک وقت قحط کے خلاف خبردار کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’یہ بات ناقابل فہم ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی دنیا اس حد تک خشک سالی اور قحط کا سامنا کر رہی ہے کہ ماہرین صرف چھ ماہ کے عرصے میں 20 ملین یا دو کروڑ سے زائد تک ممکنہ انسانی ہلاکتوں کے خلاف تنبیہ کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔‘‘
عارف حسین نے روئٹرز کو بتایا، ’’اگر میں صومالیہ کی موجودہ صورت حال کو دیکھوں تو وہاں خاص طور پر اشیائے خوراک کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں، مویشیوں کی قیمتوں میں شدید کمی اور زرعی شعبے کے کارکنوں کی اجرتوں میں بہت زیادہ گراوٹ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صومالیہ میں قحط کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کا المناک سلسلہ بہت جلد دیکھنے میں آ سکتا ہے۔‘‘
جنوبی سوڈان :ہزاروں افراد بھوک کے سبب لقمہ اجل بن سکتے ہیں
دس برسوں میں پاکستان قحط کا شکار ہو سکتا ہے، رپورٹ
روئٹرز کے مطابق بحرانوں، خشک سالی اور قحط کے شکار انسانوں کی مدد کرنے والے بین الاقوامی نظام کو پہلے ہی عالمی سطح پر بدامنی کے شکار ملکوں کے شہریوں کی طرف سے ترک وطن کے ایک تاریخی حد تک شدید رجحان کا سامنا ہے اور شام، عراق، افغانستان، مشرقی یوکرائن، برونڈی، لیبیا اور زمبابوے میں انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔
ایسے میں دنیا کے چار مختلف خطوں میں کروڑوں انسانوں کی بھوک کے ہاتھوں ہلاکت کا خطرہ ایک ایسی المناک صورت حال ہے، جس نے بین الاقوامی امدادی اداروں اور ان کے کارکنوں کو مزید پریشان کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو، وسطی افریقی جمہوریہ، مالی اور نائجر کی مثالیں ایسے ممالک کی ہیں، جہاں اشیائے خوراک کی فراہمی کے حوالے سے حالات میں مستقل بے یقینی پائی جاتی ہے اور مقامی طور پر ان ملکوں میں ایسے وسائل بھی دستیاب نہیں کہ کسی طرح وہاں ممکنہ قحط کے تدارک کے لیے کوئی علاقائی حل نکالے جا سکیں۔