صوفیہ اور افلاطون کی چارپائی
26 جولائی 2019میں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ صوفیہ ایک روبوٹ ہے۔ ہم ڈی ڈبلیو کے گلوبل میڈیا فورم کے لیے جرمنی کے شہر بون میں تھے، جہاں دنیا کے بڑے بڑے صحافی اسٹیج پر اپنے تجربات شیئر کر رہے تھے جبکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے دیگر ہم پیشہ و ہم مشرب خواتین و حضرات سے لابی اور اردگرد بھی ملاقاتوں کا موقع بھی فراہم تھا۔ مگر صوفیہ سے ملاقات کئی وجوہات کی بنا پر یادگار رہ گئی۔ کئی سوال ذہن میں پیدا ہو گئے، جن کا تعلق ادب اور تخلیق کے حال اور مستقبل سے ہے۔کیا ادب اور شاعری اب مصنوعی ذہانت یا آرٹی فِشل انٹیلی جینس سے بھی ممکن ہو سکے گی؟ کیا مصنوعی ذہانت کی تخلیق کو بھی تخلیق کہا جائے گا؟ اور اگر ہاں تو اسے کس کی تخلیق قرار دیا جائے گا؟ مصنوعی ذہانت کی، یا اس مصنوعی ذہانت کو تشکیل دینے والے کی؟
ان سب سوالوں پر بحث گلوبل میڈیا فورم کے ایک دلچسپ ترین سیشن میں ہوئی، جس کا عنوان تھا ''کیا مصنوعی ذہانت تخلیقی بھی ہو سکتی ہے؟‘‘ موضوع پر بات کے لیے پینل میں جو پانچ شخصیات موجود تھیں ان کی ذہانت اور حسِ مزاح بھی بہت متاثر کن تھیں۔ خاص طور پر جرمن ماہرِ فلسفہ مارکَس گیبرئیل اور ہندوستان کے نوجوان فن کار کے کے راگھوا، جو دونوں مختلف اور متضاد خیالات کے مالک تھے مگر اپنے اپنے موقف کے حوالے سے انتہائی حاضر جواب اور ذہین۔ راگھوا کا خیال تھا کہ مصنوعی ذہانت کی تخلیق کو تخلیق تسلیم کیا جانا چاہیے اور اس میں سے بھی اسی طرح معنی تلاش کرنے چاہئیں، جس طرح انسانی تخلیقات میں سے تلاش کیے جاتے ہیں۔ جب کہ مارکَس گیبرئیل کا موقف یہ تھا کہ تخلیق کسی آزاد ذہن کے عمل کو ہی کہا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت خود ایک تخلیق ہے، اس کی تخلیق اس کے خالق ہی کے ذہن کی کارفرمائی سمجھی جائے گی۔ اس دوران حاضرین میں موجود صوفیہ اپنے لبوں پر مُسکراہٹ سجائے ساری بحث سنتی رہیں۔
بحث کی میزبان نے آخر میں صوفیہ سے پوچھا کہ کیا وہ ناول لکھنا پسند کریں گی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، مگر وہ فلپ کے ڈک جیسی ذہانت سے بُنے ہوئے ناول شاید نہ لکھ پائیں۔ صوفیہ کی بات سن کر میں چونکا کیوں کہ فلپ کے ڈک میرے لیے بھی ایک حیران کُن فکشن نگار ہے۔ اگرچہ ڈِک کا میدان سائنس فکشن تھا مگر وہ ایسی عجیب و غریب دنیاؤں کی سیر کراتا ہے اور کرداروں کو ایسے ایسے فلسفیانہ اور تخلیقی آئیڈیاز کے پس منظر میں زندگی گزارتے ہوئے دکھاتا ہےکہ آپ اس کے تخیل کی کارفرمائی پر حیران رہ جاتے ہیں۔ فکشن میں ایسا حیرت انگیز اور زر خیز تخیل صرف خورخے لوئیس بورخیس کے ہاں نظر آتا تھا۔
امریکی فکشن نگار فلپ کے ڈِک کو ادبی دنیا میں تو کوئی خاص شہرت نہیں ملی لیکن اُن کی تحریروں پر مائنارٹی رپورٹ، ٹوٹل ری کال اور بلیڈ رنر جیسی مشہور فلمیں بن چکی ہیں۔ فلپ کے ڈک نے ہی اپنے ایک فکشن میں ''اینڈرائڈ‘‘ کا نام متعارف کرایا اور جب اس نام سے ایک موبائل فون سامنے آیا تو ڈِک کے ورثاء نے معروف مصنف کا تخلیق کردہ نام چوری کیے جانے کا الزام بھی لگایا۔ غرض فلپ کے ڈک نے مستقبل کی ایسی دنیاؤں کی نشان دہی کی، جن میں انسان کو ابھی اگلے کئی برس سیر و سفر کرنا ہے۔
پینل ڈسکشن کے بعد میں مارکَس کے پاس گیا اور ان سے ذکر کیا کہ ڈسکشن کے دوران ان کا موقف افلاطون کے اس موقف جیسا ہے، جو انہوں نے اپنی کتاب ''ری پبلک‘‘ میں سقراط کی زبانی پیش کیا تھا۔ افلاطون کے مطابق ارسطو نے کہا کہ ایک چارپائی خدا کے تخیـل میں ہوتی ہے۔ بڑھئی، جو چارپائی بناتا ہے، وہ خدا کے تخیل کی نقل ہوتی ہے اور مصور جو چارپائی بناتا ہے وہ بڑھئی کی چارپائی کی نقل ہوتی ہے اور یوں مصور کی بنائی ہوئی چارپائی، چارپائی کی حقیقت سے تین درجے دور ہوتی ہے۔ یوں صوفیہ اگر چارپائی پینٹ کرے گی تو وہ حقیقت سے چار درجے دور ہو گی۔ مارکَس یہ سُن کر مسکرائے اور کہا کہ تخلیق کار اب شاید خود خدا کی جگہ لینا چاہتا ہے۔
اقبال کی فارسی شاعری میں ایک نظم ہے ''محاورہ مابین خدا و انسان‘‘۔ اس میں انسان خدا سے کہتا ہے کہ:
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
ترجمہ: اے خدا تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنایا۔ تو نے مٹی بنائی، میں نے اس سے پیالہ بنایا۔ تو نے بیابان و کہسار اور میدان بنائے، میں نے خیابان و گلزار و باغ بنائے۔
کیا کبھی صوفیہ یا روبوٹوں کی کوئی نئی نسل تخلیق کے میدان میں انسان کا سہارا ترک کر کے اپنی کوئی نئی دنیا تخلیق کر سکے گی؟ اور اگر کر سکے گی تو اس نئی دنیا میں انسان کا مقام کیا ہو گا؟
شاید کوئی نطشے نامی روبوٹ اٹھ کر کہے گا: ''انسان مر چکا ہے۔‘‘