صوماليہ ميں بھوک کے مقابلے کے بعد امن ضروری
2 ستمبر 2011والٹر لنڈنر جرمن وزارت خارجہ کے نمائندہ برائے افريقہ ہيں۔ وہ حال ہی ميں افريقہ کے دورے سے واپس آئے ہيں۔ اُنہوں نے کہا: ’’چار لاکھ 50 ہزار افراد کيمپوں ميں رہ رہے ہيں۔ وہ کام نہيں کر سکتے اور کيمپوں سے باہر بھی نہيں جا سکتے۔ اس طرح وہ اگلی نسل تک اسی طرح سے زندگی گذارنے پر مجبور ہيں۔ يہ ايک بہت بری صورتحال ہے، جو کسی کے ليے بھی قابل قبول نہيں ہے۔‘‘
والٹر لنڈنر برسوں تک افريقہ کے مختلف ممالک ميں اپنے ملک کے سفير کے فرائض انجام دے چکے ہيں۔ وہ ايک غير روايتی قسم کے سفارتکار ہيں۔ غربت کبھی بھی اُن کے ليے کوئی اچھوت چيز نہيں رہی اور وہ ہميشہ انسانوں کی مدد کے ليے تيار رہتے ہيں۔ کئی برسوں سے صوماليہ کے مشکل حالات کے باوجود انہوں نے کبھی اس ملک سے منہ نہيں موڑا۔ صوماليہ سے اُنہيں دلی لگاؤ بھی ہے: ’’نظر انداز کردينا اور يہ کہنا کہ صوماليہ 20 برسوں سے ناقابل حل مسئلہ ہے، صحيح نہيں ہوگا۔ کوئی بھی متبادل اس سوچ سے بہتر ہے۔‘‘
صوماليہ ميں پچھلے دو عشروں سے تشدد، لاقانونيت اور خانہ جنگی جاری ہے۔ کوئی باقاعدہ حکومت نہيں ہے اور فوجی گروپوں، خاندانی گروہوں اور اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا راج ہے۔ قرن افريقہ کے سمندروں ميں صومالی بحری قزاق جہاز اغوا کرکے رقوم وصول کر رہے ہيں۔
صوماليہ ميں بھوک اور قحط کا مقابلہ اولين ترجيح ہے۔ اس کے بعد اس ملک کو امن کی ضرورت ہے۔ صرف اسی طرح ايک ايسے ملک کے ليے اميد کی کرن پيدا ہو سکتی ہے، جو اس وقت نا اميدی کے اندھيروں ميں غرق ہے۔
رپورٹ: فولکر وٹنگ / شہاب احمد صديقی
ادارت: امتياز احمد