صومالی قزاقوں کی قید سے پاکستانی واپس
24 جون 2011جمعرات کے روز پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس ذوالفقار سے کراچی پہنچنے والے پاکستانیوں کا گورنرسندھ کی جانب سے شاندار استقبال کیا گیا۔
اگست دو ہزار دس میں سمندر کے سفر پر جانے والے ایم وی سوئز نامی مصری جہاز کے عملے میں شامل کسی فرد نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ انہیں تاحد نگا پھیلے پانی میں ایسی ناگہانی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے سکتا ہے، اور وہ بھی ایسی کہ جان پر ہی بن آئے گی۔
پہلے تو کئی ماہ کسی کو خبر ہی نہ تھے کہ سمندر میں موجود جہاز پر صومالی قزاقوں نے قبضہ کرکے عملے کو یرغمال بنا لیا ہے۔ تاہم پھر جہاز کے کپتان وصی کی گیارہ سالہ بچی لیلٰی نے اپنی والد کی رہائی کے لیے مانگے جانے والا تاوان ادا کرنے کے لیے اپنا گردہ بیچنے کی اپیل کی تو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف کارکن انصار برنی نے ان بے یارو مددگار افرادکی رہائی کی جد وجہد کا آغاز کیا۔ اور پھر بات یہاں تک پہنچی کے لیلٰی کی آواز نے ایوان اقتدار میں ہلچل مچادی اور گورنر سندھ نے لیلٰی کے آنسو پونچھے اور اس سے وعدہ کیا کہ اسکے والد کو اس سے ملوائیں گے۔
لیکن یہ وعدہ پورا کرنا اتنا بھی آسان نہیں تھا۔ قزاقوں نے چار پاکستانیوں، چھ بھارتیوں، ایک سری لنکن اور گیارہ مصری باشندوں کی رہائی کے لیے امریکی ڈالر میں تاوان طلب کیا تھا جس کی ادائیگی تقریباَ ڈیڑھ ماہ میں کراچی کے مخیر حضرات کے تعاون سے ممکن ہوسکی۔
تاوان کی رقم اکھٹا کرنے میں درپیش مشکلات تو اپنی جگہ لیکن بھارت کی جانب سے اپنے شہریوں کے لیے رقم دینے کے وعدہ اور پھر اس سے مکر جانے نے ایک وقت کو تو صورت حال کو اس قدر گھمبیر کر دیا تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی صرف ایک خواب محسوس ہونے لگی تھی۔
قزاقوں کی قید سے رہا ئی کے بعد جب کیپٹن وصی جہاز سے باہر آئے تو ان کی اور ان کی بیٹی کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن اس بار یہ آنسو غم کے نہیں بلکہ خوشی کے تھے۔ رہائی پانے والے غیر ملکی، جن میں چھ بھارتی بھی شامل تھے، کے اعزاز میں گورنر ہاوس میں ایک تقریب منعقد کی گئی، جس میں بھارتیوں، سری لنکنوں اور مصری باشندوں کو ان کے سفارتی حکام کے حوالے کردیا گیا۔ یہ افراد جلد اپنے ملکوں کو روانا ہو جائیں گے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: شامل شمس